رشید ندیم

  1. محمد تابش صدیقی

    غزل: کبھی آیت، کبھی تفسیر میں الجھے ہوئے ہیں ٭ رشید ندیم

    کبھی آیت، کبھی تفسیر میں الجھے ہوئے ہیں ہم ابھی اپنی اساطیر میں الجھے ہوئے ہیں کوئی آئینِ قدامت ہمیں گھیرے ہوئے ہے ہم پرانی کسی تحریر میں الجھے ہوئے ہیں تو کبھی مسجد و محراب سے باہر بھی نکل ہم ترے خواب کی تعبیر میں الجھے ہوئے ہیں زلفِ ایام سلجھتی ہی نہیں ہے ہم سے یوں تری زلفِ گرہ گیر میں...
  2. فرخ منظور

    سب سے مرا یارانہ.... اناالعشق اناالعشق ۔ رشید ندیم

    سب سے مرا یارانہ.... اناالعشق اناالعشق کوئی نہیں بیگانہ .......اناالعشق اناالعشق اک روز مجھے دار پہ....... منصور نے پوچھا تم نے مجھے پہچانا ... اناالعشق اناالعشق ہر آنکھ ھے وارفتہِ نظارہ........ مجھے دیکھ اے نرگسِ مستانہ ..... اناالعشق اناالعشق عاشق ھو کہ معشوق سبھی روپ ہیں میرے ھو شمع کہ...
  3. فرخ منظور

    والدہ کی پہلی برسی پر غزل از رشید ندیم

    غزل (امی کی پہلی برسی پر) کسی تارے، کسی مہتاب میں ڈھل جاتا ھے یا مرے دیدہٴ پُر آب میں ڈھل جاتا ھے دیکھتے دیکھتے ان آنکھوں سے چہرہ کوئی جانے کس حلقہٴ گرداب میں ڈھل جاتا ھے ساتھ رھتا ھے کوئی موج نفس کی صورت اور پھر لمہٴ نایاب میں ڈھل جاتا ھے ماں بھی اک روز ھمیں...
  4. فرخ منظور

    سب ترے بادۂ گلفام سے نکلے ہوئے ہیں ۔ رشید ندیم

    غزل سب ترے بادۂ گلفام سے نکلے ہوئے ہیں جتنے نشّے ہیں ترے جام سے نکلے ہوئے ہیں جس طرف دیکھیں ترے اسم کا پھیلا ھے طلسم نام جتنے ہیں ترے نام سے نکلے ہوئے ہیں ہم بھی کرتے ہیں شب و روز اُسی گھر کا طواف ہاں فقط جامۂ احرام سے نکلے ہوئے ہیں ڈھونڈنے اُٹھے ہو اب سانجھ سویرے جس کو ڈھونڈنے ہم...
  5. فرخ منظور

    رہ میں ہوں عالمِ سکرات تلک پہنچا ہوں ۔ رشید ندیم

    رہ میں ہوں عالمِ سکرات تلک پہنچا ہوں میں ابھی تیرے مضافات تلک پہنچا ہوں ابھی موہوم، مجسّم نہیں ھونے پایا میں فقط رمزوکنایات تلک پہنچا ہوں رازِِ سربستہ کُھلے گا کہیں آگے جاکر میں ابھی تیرے طلسمات تلک پہنچا ہوں اور کچھ دیر میں الہام کی بارش ہو گی میں ابھی شورِ مناجات تلک پہنچا ہوں راہ سے خود...
  6. فرخ منظور

    نظارہ تھا اک اور ہی منظر سے نکل کر - رشید ندیم

    نظارہ تھا اک اور ہی منظر سے نکل کر دیکھا جو سمندر کو سمندر سے نکل کر پھرتا تھا کہیں خواب خلاؤں میں اکیلا میں گردشِ افلاک کے محور سے نکل کر اب یاد نہیں رہتی مجھے وقت کی گنتی نسیاں میں پڑا رہتا ہوں ازبر سے نکل کر کھو جاؤں گا اِک روز کسی خوابِ ابد میں لیٹوں گا کفِ خاک پہ بستر سے نکل کر...
Top