رشید ترابی

  1. فرحان محمد خان

    غزل : ارمان نکلتے دلِ پُر فن کے برابر - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل ارمان نکلتے دلِ پُر فن کے برابر ویرانہ جو ہوتا کوئی گلشن کے برابر کیوں اہلِ نظر ایک ہے دونوں کی طبیعت سُنبل نے جگہ پائی جو سوسن کے برابر میں دام پہ گرتا نہیں اے ذوقِ اسیری ہاں کوئی قفس لائے نشیمن کے برابر میں بھول نہ جاؤں کہیں انجامِ تمنا بجلی بھی چمکتی رہی خرمن کے برابر کیا لطف...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : وہ جو اک قطرہ ہے پانی کا ہوا سے خالی - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل وہ جو اک قطرہ ہے پانی کا ہوا سے خالی دلِ دریا میں ہے اور فکرِ فنا سے خالی اب خلش ہے کہ نہیں پوچھنے والا کوئی ہائے وہ گھر جو ہو سائل کی صدا سے خالی فطرتِ ظُلم جو دم لے تو سنبھل کر دیکھو کتنے ترکش ہیں یہاں تیرِ جفا سے خالی ہے نتیجے میں وہ ناکام ، زمانے کی قسم زندگی جس کی رہی کرب و بلا سے...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل کس کی عطا ہے کس کی یہ دولت ہے دی ہوئی آیا جہاں اندھیرا وہیں روشنی ہوئی حدِ نظرہے اور ، ہے کچھ اور حدِ علم ہرشے میں کوئی شے ہے یقیناََ چھپی ہوئی بازارِ زیست میں ہے امانت ہر ایک جنس فی الحال ایک جان ہے وہ بھی بِکی ہوئی جس کو خزاں میں صبر و سکوں سے ملا قرار آئی بہار ان کا پتہ پوچھتی ہوئی...
  4. فرحان محمد خان

    غزل : سفرِ زیست جو لازم ہے ہر اک گام چراغ - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل سفرِ زیست جو لازم ہے ہر اک گام چراغ جیسے جلتے ہوں سرِ رہ گزرِ عام چراغ کیا سحر تک کوئی جلنے کی تمنا کرتا بجھتے دیکھے ہیں اسی دل نے سرِ شام چراغ منتظر آنکھ میں خود ہے کوئی تارا روشن کیوں جلاتا ہے فلک شام سے گمنام چراغ جاگنے والے محبت میں یہی جانتے ہیں ہجر کو کہتے ہیں شب داغ کا ہے...
  5. فرحان محمد خان

    غزل : ہوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل ہوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے زمیں پہ پاؤں نہ تھے احتیاط کیا کرتے شراب نام ہے خود ساختہ تغافل کا خرد کو آگ لگی تھی نشاط کیا کرتے جو ہم نشیں تھے گل و خار کہہ دیا ، ہمسر فریبِ عہد ہے یہ ، بے بساط کیا کرتے قدم قدم پہ نئے گل کُھلا رہی ہے ہوس حیا سے گڑ گئے ہم انبساط کیا کرتے رچائے بیٹھے...
  6. فرحان محمد خان

    غزل : ڈرتے رہو بنے نہ فلک مہرباں کہیں - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل ڈرتے رہو بنے نہ فلک مہرباں کہیں جب گوشِ ہوش ہے تو بنوں کیوں زباں کہیں پھر اک دھواں ہے اور مرا داغ دیدہ دل ممکن ہے جل رہا ہو کوئی آشیاں کہیں کیا ان بلندیوں پہ بھی ہیں اتنی پستیاں لے جا کہ خیمہ ڈال دے اے آسماں کہیں اک داغِ زندگی ہے یہ بے راہ زندگی سجدے کہیں ہیں اُن کے قدم کے نشاں...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : ہوا ہوس کی چلی نفس مشتعل نہ ہوا - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل ہوا ہوس کی چلی نفس مشتعل نہ ہوا جسے یہ بات میسر ہوئی خجل نہ ہوا گزر چلا مَن و تُو سے فضائے ہُو کا حریف بشر وہی جو گرفتارِ آب و گِل نہ ہوا یہ اور بات ہے ظالم کی نیند اُڑ جائے ارودتاََ مرا نالہ کبھی مُخل نہ ہوا شکونِ فکر ، سکونِ نظر ، سکونِ حیات خمیرِ زیست ان اجزا پہ مشتمل نہ ہوا جو...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : اب کیا کسی اور سے گلہ ہے - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل اب کیا کسی اور سے گلہ ہے یہ دل یہی میرِ قافلہ ہے کس طرح چھپائیں داغِ داماں یہ اپنا اپنا حوصلہ ہے ہر آن خوشی کی جستجو میں غم کا غم سے مقابلہ ہے ہنستے ہوئے آئے سب اندھیرے شاید کہیں دل سے دل ملا ہے ابھروں میں کسی طرح جہاں میں یہ جوشِ نمود آبلہ ہے میں دُور ہوں فکرِ آشیاں سے...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : داستاں صبر کی غیروں کو سنائی نہ گئی - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل داستاں صبر کی غیروں کو سنائی نہ گئی جُز رَسی دردِ خداداد میں پائی نہ گئی فکرِ آزاد کو پروائے نشیمن کب تک تہمتِ تنگ دلی مجھ سے اُٹھائی نہ گئی حرکتِ نفس طلب اور طلب لامحدود لطفِ ساقی ہے کہ یہ پیاس بجھائی نہ گئی اے گزرتی ہوئی دنیا سے لپٹنے والے کیا گلہ ہے جو تری آبلہ پائی نہ گئی ذائقہ...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : نہیں ہے آتشِ زرتشت ، روز و شب نہ جلے - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل نہیں ہے آتشِ زرتشت ، روز و شب نہ جلے یہ دل ہے جلوہ گہہِ طُور ، بے سبب نہ جلے ہے باغباں کی یہی مصلحت تو عبرت ہے جلا ہے میرا نشیمن تو سب کا سب نہ جلے ہوائے دہر سے شعلے بھڑک رہے ہوں جہاں خدا کی شان ہے ، کوئی ہو جاں بَلَب نہ جلے دل و نگاہ کی وسعت عجب بلندی ہے حسد ہے دل میں تو کیوں کوئی کم...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل محتاج ہر نفس میں کسی کا شریک ہے شرکت ہے احتیاج ، صمد لا شریک ہے بدبخت کون ہے نہ کُھلا سب نے یہ کہا کشتی کے ساتھ ڈوبنے والا شریک ہے ہر فتحیاب کے لئے تنہا تھا تیرا نام اب جشنِ فتح میں تو زمانہ شریک ہے یہ دوست کا ہے غم تو مبارک مکر یہ سوچ اس غم میں کس قدر غمِ دنیا شریک ہے ظاہر میں...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : تغیر دہر کا فطری ہے لیکن ناگہاں کیوں ہو - علامہ رشید ترابیؔ

    غزل تغیر دہر کا فطری ہے لیکن ناگہاں کیوں ہو بہاروں پر خزاں آئے ، بہاروں میں خزاں کیوں ہو جلا ڈالا نشیمن باغباں نے اس بہانے سے کہ اس سُوکھی ہوئی ڈالی پہ تیرا آشیاں کیوں ہو نیا قصہ ہے اے کاتب نیا عنوان قائم کر شریکِ داستانِ غیر میری داستاں کیوں ہو گھر اپنا ڈھونڈ لیتا ہے فضا میں ٹوٹتا تارا...
Top