غزلِ
ہنسے تو آنکھ سے آنسو رَواں ہمارے ہُوئے
کہ ہم پہ دوست بہت مہرباں ہمارے ہُوئے
بہت سے زخم ہیں ایسے، جو اُن کے نام کے ہیں
بہت سے قرض سَرِ دوستاں ہمارے ہُوئے
کہیں تو، آگ لگی ہے وجُود کے اندر
کوئی تو دُکھ ہے کہ، چہرے دُھواں ہمارے ہُوئے
گرج برس کے نہ ہم کو ڈُبو سکے بادل
تو یہ...
غزل
یہ معجزہ بھی محبّت کبھی دِکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گِرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہُوں سائے کو
بدن مِرا ہی سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
بَرنگِ عَود مِلے گی اُسے مِری خوشبُو
وہ جب بھی چاہے، بڑے شوق سے جَلائے مجھے
میں گھر سے، تیری تمنّا پہن کے جب نِکلوں
برہنہ شہر میں...
غزلِ
محسن نقوی
سانسوں کے اِس ہُنر کو نہ آساں خیال کر
زندە ہُوں، ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر
مالی نے آج کتنی دُعائیں وصُول کِیں
کُچھ پُھول اِک فقیر کی جُھولی میں ڈال کر
کل یومِ ہجر، زرد زمانوں کا یوم ہے
شب بھر نہ جاگ، مُفت میں آنکھیں نہ لال کر
اے گرد باد! لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے...
غزلِ
جانثاراختر
زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں ہم نہ کہتے تھے
عِلاجِ چاکِ پیراہن ہُوا، تو اِس طرح ہوگا
سِیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
ترانے کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کرلیں گے
عجب انداز سے پھیلے گا زِنداں ہم نہ کہتے تھے
کوئی اِتنا نہ...
غزلِ
محسن نقوی
پَل بھر کو مِل کے اجْرِ شِناسائی دے گیا
اِک شخص، ایک عُمر کی تنہائی دے گیا
آیا تھا شوقِ چارہ گری میں کوئی، مگر
کُچھ اور دِل کے زخْم کو گہرائی دے گیا
بِچھڑا، تو دوستی کے اثاثے بھی بَٹ گئے
شُہرت وہ لے گیا، مجھے رُسوائی دے گیا
کِس کی برہنگی تِری پوشاک بن گئی ؟
کِس کا لہُو...
غزلِ
مُحسن نقوی
کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تِری آنکھیں، تِرے لب یاد آئے
ایک تُو تھا جسے غُربت میں پُکارا دِل نے
ورنہ، بِچھڑے ہُوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پَل بھر سوچا
دُکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبَب یاد آئے
پُھول کِھلنے کا جو موسم مِرے دل...
غزل
شفیق خلش
نہ دوست بن کے مِلے وہ ، نہ دشمنوں کی طرح
جُدا یہ ُدکھ بھی، مِلے اور سب دُکھوں کی طرح
یُوں اجنبی سی مُصیبت کبھی پڑی تو نہ تھی
سحر کی آس نہ جس میں وہ ظلمتوں کی طرح
نہ دل میں کام کی ہمّت، نہ اوج کی خواہش !
کٹے وہ حوصلے سارے مِرے پروں کی طرح
ستارے توڑ کے لانے کا کیا کہوں میں...