دُنیا بھی عجب قافلہِ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اِک لذتِ پابندیِ اظہار و بیاں ہے
جو دل کے سمندر میں اُبھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گُماں ہے
پُھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انور
آوارۂ گلزار نشیمن کا دُھواں ہے...
درسِ اِمروز
بچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہر گز نہیں روتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اُردو وہ زباں ہے کہ جو نافِذ نہیں ہوتی
نُسخہ
اک ڈاکٹر سے مشورہ لینے کو میں گیا
ناسازیء مزاج کی کچھ ابتدا کے بعد
کرنے لگے وہ پھر میرا طبی معائنہ
اک وقفہء خموشیء صبر آزما کے بعد
ضرباتِ قلب و نبض کا جب کر چُکے شمار
بولے وہ اپنے پیڈ پر کچھ لکھ لِکھا کے بعد
'ہے آپ کو جو عارضہ وہ عارضی نہیں
سمجھا ہوں میں تفکرِ بے انتہا کے بعد...
پپو سانوں تنگ نہ کر تُوں
بڑے ضروری کم لگے آں
سوچی پئے آں ہُن کی کریے
روٹی شوٹی کھا بیٹھے آں
لسی شسی پی بیٹھے آں
حقے دا کش لا بیٹھے آں
پونج پانجھ کے اندروں باہروں
پانڈے وی کھڑکا بیٹھے آں
سوچی پئے آں ہُن کی کریے
ویکھ لیاں نے سب اخباراں
سبھے ورقےتُھل بیٹھے آں
پڑھ بیٹھے آں سارے اکھر...