غزل
اقبال عظیم
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں
مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں
یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں!
آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں
آپ...
تیری مدحت اور میں، معذور و سرتاپا قصور
میں کہاں سے لاؤں اتناحوصلہ، اتنا شعور
صرف تیرے آسرے پر لب کشا ہوتا ہوں میں
اس سعادت کی مجھے توفیق دے ربِّ غفور
غنچہ و گل آئنہ تیرے جمالِ قدس کا
ماہ و انجم سے عیاں تیری تجلی، تیرا نور
ہے رواں تیرے اشارے پر نظامِ کائنات
گردشِ افلاک بھی سجدہ کناں تیرے حضور...
غزل
اقبال عظیم
اِس بھری محفل میں اپنا مُدّعا کیسے کہیں
اتنی نازک بات اُن سے برملا کیسے کہیں
اُن کی بےگانہ روی کا رنج ہے ہم کو مگر
اُن کو ، خود اپنی زباں سے بے وفا کیسے کہیں
وہ خفا ہیں ہم سے شاید بر بِنائے احتیاط
اُن کی مجبوری کو بے سمجھے ، جفا کیسے کہیں
اہلِ دل تو لے اُڑیں گے اِس ذرا سی...