پروفیسر کرم حیدری

  1. محمد تابش صدیقی

    غزل: اب وقت کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے ٭ کرم حیدری

    اب وقت کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے حالات کا عنوان بہ اندازِ دگر ہے اے کشتیِ تدبیر کے آرام نشینو! تقدیر کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے از بسکہ ہیں تخریب کے اطوار نرالے تعمیر کا سامان بہ اندازِ دگر ہے اے غم کے اندھیرے میں سسکتے ہوئے راہی اب صبح کا امکان بہ اندازِ دگر ہے اربابِ محبت نہیں فریاد کے خوگر...
  2. محمد تابش صدیقی

    غزل: کیا مذاقِ آسماں ہے ہم دل افگاروں کے ساتھ ٭ پروفیسر کرم حیدری

    کیا مذاقِ آسماں ہے ہم دل افگاروں کے ساتھ ذہن پھولوں سے بھی نازک، زندگی خاروں کے ساتھ درد کم ہونے نہیں دیتے کہ ہم سے پھر نہ جائیں کیا محبت ہے مسیحاؤں کو بیماروں کے ساتھ جن کو سِم سِم کی خبر تھی ان پر دروازے کھلے ہم الجھتے ہی رہے سنگین دیواروں کے ساتھ اپنا اندازِ محبت بے نیازِ قرب و بعد جسم...
  3. محمد تابش صدیقی

    غزل: پھونک کر گھر اپنا ذکرِ برقِ ناہنجار کیا ٭ پروفیسر کرم حیدری

    پھونک کر گھر اپنا ذکرِ برقِ ناہنجار کیا خود کشی کر کے بیانِ تیغِ جوہر دار کیا شمعیں خود گل کر کے ظلمت کی مذمت کس لیے قتل کر کے دوستوں کو شکوۂ اغیار کیا کن سرابوں میں ہیں اہلِ کارواں کھوئے ہوئے پاؤں اپنے توڑ کر پھر خواہشِ رفتار کیا سر تو اپنے تم نے پھوڑے اے گروہِ خود سراں! کچھ سمجھ میں آئی بھی...
  4. محمد تابش صدیقی

    غزل: موج در موج ہے دریا تیرا ٭ پروفیسر کرم حیدری

    موج در موج ہے دریا تیرا تشنہ لب پھرتا ہے پیاسا تیرا تہہ بہ تہہ دھند کے پردے ہیں یہاں کیا نظر آئے سراپا تیرا خامشی میری ہے، حیرت میری آئنے تیرے ہیں، جلوا تیرا جانتے سب ہیں پہ کہتے ہیں ”نہیں“ کیسا تنہا ہوا رسوا تیرا پھول کھلتے ہیں تو یاد آتا ہے مسکراتا ہوا چہرا تیرا چاند چڑھتا ہے تو ہم دیکھتے...
Top