غزل
اخترؔ شیرانی
آشنا ہوکر، تغافُل آشنا کیوں ہوگئے
باوَفا تھے تُم تو، آخر بیوَفا کیوں ہو گئے
اُن وَفاداری کے وعدوں کو، الٰہی! کیا ہُوا
وہ وَفائیں کرنے والے، بیوِفا کیوں ہوگئے
تُم تو کہتے تھے کہ، ہم تُجھ کو نہ بُھولیں گے کبھی
بُھول کر ہم کو، تغافُل آشنا کیوں ہوگئے
کِس طرح، دِل سے بُھلا بیٹھے...
غزلِ
وہ کبھی مِل جائیں تو کیا کیجیے
رات دِن صُورت کو دیکھا کیجیے
چاندنی راتوں میں اِک اِک پُھول کو
بے خودی کہتی ہے سجدہ کیجیے
جو تمنّا، بر نہ آئے عُمر بھر
عُمر بھر اُس کی تمنّا کیجیے
عِشق کی رنگینیوں میں ڈُوب کر
چاندنی راتوں میں رویا کیجیے
پُوچھ بیٹھے ہیں ہمارا حال وہ
بے خوُدی توُ ہی...