زندگی ہماری بھی کیا اداؤں والی ہے
تھوڑی دھوپ جیسی ہے ، تھوڑی چھاؤں والی ہے
پھر لہو میں ڈوبا ہے ، آدمی کا مستقبل
یہ صدی جو آئی ہے ، کربلاؤں والی ہے
سب سے جھک کے ملتا ہے ، سب سے پیار کرتا ہے
یہ جو ہے ادا اس میں ، یہ تو گاؤں والی ہے
اس کے ذرے ذرے میں ، حسن ہے محبت ہے
یہ ہماری دھرتی تو...
جب ہے دریا تو عصا بھی چاہیے
خواہشوں کو راستہ بھی چاہیے
صرف راحت بے حِسی کا نام ہے
زندگی کو حادثہ بھی چاہیے
پاس ہو تم پھر بھی باقی ہے حجاب
اِک اِجازت کی ادا بھی چاہیے
سر بلندی ہے مقدر سے مگر
کچھ بزرگوں کی دعا بھی چاہیے
کیوں خزانے کی طرح محفوظ ہو
ذہن کو تازہ ہوا بھی چاہیے
پاؤں پھیلانے...