غزل
فراقؔ گورکھپوری
خرامِ نازِ لیلائے گُل اندام
گُلِ فردوس کِھلتے ہیں بَہرگام
ِتری اوقات کیا، اے عِشقِ ناکام!
اِک آہِ بے اثر، اِک دردِ بے نام
حیاتِ بے محبّت، سر بَسر موت
محبّت زندگی کا دوسرا نام
ذرا اِک گردشِ چشم اور ، ساقی!
بہت انگڑائی لیتے ہیں مئے آشام
بدل جاتی ہے دُنیا اس کو سُن کر...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
یُوں تو نہ چارہ کار تھا جان دِیے بغیر بھی
عُہدہ بَرا نہ ہوسکا عِشق جیے بغیر بھی
دیکھ یہ شامِ ہجر ہے، دیکھ یہ ہے سکُونِ یاس
کاٹتے ہیں شَبِ فِراق صُبح کیے بغیر بھی
گو کہ زباں نہیں رُکی، پِھر بھی نہ کُچھ کہا گیا
دیکھ سکُوتِ عِشق آج، ہونٹ سیے بغیر بھی
تیرے نِثار ساقیا...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
جنُونِ کارگر ہے، اور مَیں ہُوں
حیاتِ بے خَبر ہے، اور مَیں ہُوں
مِٹا کر دِل، نِگاہِ اوّلیں سے!
تقاضائے دِگر ہے، اور مَیں ہُوں
مُبارک باد ایّامِ اسِیری!
غمِ دِیوار و در ہے، اور مَیں ہُوں
تِری جمعیّتیں ہیں، اور تُو ہے
حیاتِ مُنتشر ہے، اور مَیں ہُوں
ٹِھکانا ہے کُچھ اِس...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
دہنِ یار یاد آتا ہے
غُنچہ اِک مُسکرائے جاتا ہے
رہ بھی جاتی ہے یاد دشمن کی
دوست کو دوست بُھول جاتا ہے
پَیکرِ ناز کی دَمک، جیسے
کوئی دِھیمے سُروں میں گاتا ہے
جو افسانہ وہ آنکھ کہتی ہے
وہ کہِیں ختم ہونے آتا ہے
دلِ شاعر میں آمدِ اشعار
جیسے تُو سامنے سے جاتا ہے
مَیں تو...
فِراقؔ گورکھپُوری
مشیّت برطرف کیوں حالتِ اِنساں بَتر ہوتی
نہ خود یہ زندگی ہی زندگی دشمن اگر ہوتی
یہ کیا سُنتا ہُوں جنسِ حُسن مِلتی نقدِ جاں دے کر
ارے اِتنا تو ہم بھی دے نِکلتے جو خبر ہوتی
دھمک سی ہونے لگتی ہے ہَوائےگُل کی آہٹ پر
قفس میں بُوئے مستانہ بھی وجہِ دردِ سر ہوتی
کہاں تک راز کے صیغہ...
غزل
فِراقؔ گورکھپُوری
یہ تو نہیں کہ غم نہیں!
ہاں میری آنکھ نم نہیں
تم بھی تو تم نہیں ہو آج!
ہم بھی تو آج، ہم نہیں
نشّہ سنبھالے ہےمجھے
بہکے ہُوئے قدم نہیں
قادرِ دو جہاں ہے، گو !
عشق کے دَم میں دَم نہیں
موت، اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں
کِس نے کہا یہ تُم سے خضر!
آبِ حیات سم نہیں
کہتے ہو...
غزل
فراقؔ گورکھپُوری
عِشق فُسردہ ہی رہا ،غم نے جَلا دِیا تو کیا
سوزِ جِگر بڑھا تو کیا، دِل سے دُھواں اُٹھا تو کیا
پھر بھی تو شبنمی ہے آنکھ، پھر بھی تو ہَونٹ خُشک ہیں
زخمِ جِگر ہنسا تو کیا ، غُنچۂ دِل کِھلا تو کیا
پھر بھی تو اہلِ غم تِرے، رازِ سُکوں نہ پا سکے!
تُو نے نظر کی لَورِیاں دے کے سُلا...
غزل
یہ قول تِرا، یاد ہے اے ساقئ دَوراں !
انگوُر کے اِک بِیج میں سو میکدے پنہاں
انگڑائیاں صُبحوں کی سَرِ عارضِ تاباں
وہ کروَٹیں شاموں کی سرِ کاکُلِ پیچاں
اِن پُتلیوں میں جیسے ہرن مائلِ رَم ہوں
وحشت بھری آنکھیں ہیں کہ اِک دشتِ غزالاں
ہے دار و مدار اہلِ زمانہ کا تجھی پر
تُو قطبِ جہاں، کعبہ...
غزل
کمی نہ کی تِرے وحشی نے خاک اُڑانے میں
جنُوں کا نام اُچھلتا رہا زمانے میں
فِراقؔ! دَوڑ گئی رُوح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مِرے فسانے میں
جنوُں سے بُھول ہُوئی دِل پہ چوٹ کھانے میں
فِراقؔ ! دیر ابھی تھی بہار آنے میں
وہ کوئی رنگ ہے ؟جو اُڑ نہ جائے اے گُلِ تر!
وہ کوئی بُو ہے؟ جو...
غزل
میکدے میں آج اِک دُنیا کو اِذنِ عام تھا
دَورِ جامِ بے خودی بے گانۂ ایّام تھا
رُوح لرازاں، آنکھ محوِ دِید، دِل ناکام تھا
عِشق کا آغاز بھی شائستۂ انجام تھا
رفتہ رفتہ عِشق کو تصویرِ غم کر ہی دِیا
حُسن بھی کتنا خرابِ گردشِ ایّام تھا
غم کدے میں دہر کے یُوں تو اندھیرا تھا، مگر
عِشق کا...
غزل
غم تِراجَلوَہ دَہِ کون و مکاں ہے، کہ جو تھا
یعنی اِنسان وہی شُعلہ بجاں ہے، کہ جو تھا
پھر وہی رنگِ تکلّم نگِہہ ناز میں ہے
وہی انداز، وہی حُسنِ بیاں ہے کہ جو تھا
کب ہے اِنکار تِرے لُطف وکَرَم سے، لیکن!
تووہی دُشمنِ دِل، دُشمنِ جاں ہے، کہ جو تھا
عِشقِ افسُردہ نہیں آج بھی افسُر دہ بہت ...
غزل
طوُر تھا، کعبہ تھا، دِل تھا ، جلوہ زارِ یار تھا
عِشق سب کچھ تھا مگر پھر عالَمِ اسرار تھا
نشۂ صد جام کیفِ انتظارِ یار تھا
ہجر میں ٹھہرا ہُوا دِل ساغرِ سرشار تھا
دِل دُکھے روئے ہیں شاید اِس جگہ، اے کوئے دوست!
خاک کا اِتنا چمک جانا ذرا دُشوار تھا
الوِداع اے بزمِ انجم، ہجر کی شب الفراق...
غزلِ
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
دِیدار میں اِک طُرفہ دِیدار نظر آیا
ہر بار چُھپا کوئی ، ہر بار نظر آیا
چھالوں کو بیاباں بھی گُلزار نظر آیا
جب چھیڑ پر آمادہ ہر خار نظر آیا
صُبحِ شبِ ہجراں کی وہ چاک گریبانی
اِک عالَمِ نیرنگی ہر تار نظر آیا
ہو صبر ،کہ بیتابی، اُمِّید کہ،...
سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنّا بھی نہیں
لیکن اِس ترکِ محبّت کا بھروسا بھی نہیں
بات یہ ہے کہ سکونِ دلِ وحشی کا مقام
کُنجِ زنداں بھی نہیں وسعتِ صحرا بھی نہیں
یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں
ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں
تُو نے کچھ آہ...
غزلِ
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
یہ نِکہتوں کی نرم رَوی، یہ ہَوا، یہ رات
یاد آ رہے ہیں عِشق کو ٹُوٹے تعلّقات
مایُوسِیوں کی گود میں دَم توڑتا ہے عِشق
اب بھی کوئی بنا لے تو بِگڑی نہیں ہے بات
اِک عُمر کٹ گئی ہے تِرے اِنتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ، کٹ نہ سکی جِن سے ایک رات
ہم اہلِ...
غزلِ
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اِک شرحِ حیات ہو گئی ہے
جب دِل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے
غم سے چُھٹ کر، یہ غم ہے مجھ کو !
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے ؟
مُدّت سے خبر مِلی نہ دِل کی
شاید کوئی بات ہو گئی ہے
جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری
تصویرِ حیات...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
دَورِ آغازِ جفا ، دِل کا سہارا نکلا
حوصلہ کچھ نہ ہمارا، نہ تمھارا نکلا
تیرا نام آتے ہی، سکتے کا تھا عالم مجھ پر
جانے کس طرح، یہ مذکور دوبارا نکلا
ہےترے کشف و کرامات کی ، دُنیا قائل
تجھ سے اے دِل! نہ مگر کام ہمارا نکلا
عبرت انگیزہے کیا اُس کی جواں مرگی بھی ...
فراق گورکھپوری
غزل
سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنّا بھی نہیں
لیکن اِس ترکِ محبّت کا بھروسہ بھی نہیں
بُھول جاتے ہیں کسی کو مگر ایسا بھی نہیں
یاد کرتے ہیں کسی کو، مگر اِتنا بھی نہیں
تم نے پُوچھا بھی نہیں، میں نے بتایا بھی نہیں
کیا مگر راز وہ ایسا تھا کہ جانا بھی نہیں
ایک مُدّت سے تِری...
فراق گورکھپوری
غزل
دل افسُردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
کسی کا درد اُٹّھے جن میں وہ راتیں نہیں ہوتیں
ہم آہنگی بھی تیری دُورئ قربت نُما نِکلی
کہ تجھ سے مِل کے بھی تجھ سے مُلاقاتیں نہیں ہوتیں
یہ دَورِ آسماں بدلا، کہ اب بھی وقت پر بادل !
برستے ہیں، مگر اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں...