روح ادب

  1. ش

    جوش طوفانِ بے ثباتی ۔ جوش ملیح آبادی

    طوفانِ بے ثباتی چاندنی تھی صبح کا ہنگام تھا میں یکایک اپنے بستر سے اٹھا ڈوبتے تاروں کو دیکھا غور سے آنکھ میں اشکوں سے طوفان آگیا ذرّہ ذرّہ میں زمیں سے تا فلک موج زن تھا اِک سمندر حُسن کا وہ گلابی روشنی ، ہلکا وہ نور وہ تڑپ دریا کی ، وہ ٹھنڈی ہوا وہ نسیم صبح کی اٹھکیلیاں وہ...
  2. ش

    جوش مجھے تیری نعمتوں کی خواہش نہیں ۔ ۔ ۔ جوش ملیح آبادی

    مجھے تیری نعمتوں کی خواہش نہیں بے تعلق ہوں دین و دنیا سے حُبِّ ثروت نہ فکرِ جنت ہے نہ مجھے شوق صبح آسائش نہ مجھے ذوقِ شامِ عشرت ہے نہ تو حور و قصور پر مائل نہ تو ساقی و مے سے رغبت ہے نہ تقاضائے منصب و جاگیر نہ تمنائے شان و شوکت ہے "کچھ مجھے تیرے در سے مل جائے" کسی...
  3. ش

    جوش حقیقتِ دل

    حقیقتِ دل آئیں اسکول کے احباب سُنیں درد مرا گرم کردے گا لہو ، ہر نفس سرد میرا آئیں بیٹھیں ، مری تقریر سنیں غور کریں عافیت کا سامان ، بہر طور کریں کیوں شکایت ہے کہ "پڑھنے کا اسے شوق نہیں " دل میں تحصیل کمالات کا کچھ ذوق نہیں "مدرسہ" کیوں نہیں آتا " یہ شکایت کیا ہے کاش پوچھیں تو...
  4. ش

    جوش خیالاتِ زرّیں ۔۔۔۔۔۔ جوش ملیح آبادی

    خیالاتِ زرّیں تو رازِ فراغت کیا جانے محدود تری آگاہی ہے اپنے کو ہرشاں حال سمجھنا ، عقل کی یہ کوتاہی ہے دولت کیا ؟ اک روگ ہے دل کا ، حرص نہیں گمراہی ہے دنیا سے بے پرواہ رہنا سب سے بڑی یہ شاہی ہے اس قول کو میرے مانے گا جو صاحبِ دل ہے دانا ہے کہتے ہیں جسے " شاہنشاہی " حاجت کا روا...
  5. ش

    جوش گریۂ مسرّت ۔۔۔۔۔ جوش ملیح آبادی

    گریۂ مسرّت نازنین و عفیف اِک بیوی یاد شوہر میں سست بیٹھی تھی غمزدہ ، مضمحل پریشاں حال شکل غمگین ، پُرشکن خط و خال سوزِ ہجراں کی آنچ سینے میں ! پھر وہ برسات کے مہینے میں اُدی اُدی گھٹائیں آتی تھیں اس کے دل پر بلائیں آتی تھیں دل میں کہتی تھی "کب وہ آئیں گے" "کب یہ دن بیکسی کے...
  6. ش

    جوش مناظر ِ سحر ۔۔ جوش ملیح آبادی

    مناظر ِ سحر کیا روح فزا جلوۂ رخسار ِ سحر ہے کشمیر دل زار ہے فردوس نظر ہے ہر پھول کا چہرہ عرقِ حسن سے تر ہے ہر چیز میں اک بات ہے ہر شے میں اثر ہے ہر سمت بھڑکتا ہے رُخِ حُور کا شعلہ ہر ذرّۂ ناچیز میں ہے طور کا شعلہ ! لرزش وہ ستاروں کی وہ ذرّوں کا تبسّم چشموں کا وہ بہنا کہ...
  7. ش

    جوش وہ سیہ بخت کن الفاظ میں فریاد کرے ۔ جوش ملیح آبادی

    وہ سیہ بخت کن الفاظ میں فریاد کرے جس کو تو مرحمت و لطف سے برباد کرے اے صبا خدمتِ سلطاں میں ادب سے کہنا کہ گدایانِ سر ِ راہ کو بھی یاد کرے جس کو تم بھول گئے یاد کرے کون اس کو جس کو تم یاد ہو وہ اور کسے یاد کرے کس کو بھیجوں کہ کہے یار برافروختہ سے کہ مجھے اپنی غلامی سے نہ آزاد کرے...
Top