غزل
(ریحانہ نواب)
غزل جو میرؔ کی ہم گنگنانے لگتے ہیں
تو اور بھی وہ ہمیں یاد آنے لگتے ہیں
عجیب شوق ہے یہ کیسا ولولہ دل میں
نظر کے ملتے ہی ہم مُسکرانے لگتے ہیں
بہت قریب سے میں نے بھی اُن کو چاہا تھا
تو آج خواب میں آکر منانے لگتے ہیں
وفا کے پھول کی خوشبو ہے کوبکو پھیلی
تمہاری یاد کے موسم سہانے...
غزل
(ریحانہ نواب)
تم سے وابسطہ تھی زندگانی میری
تم گئے لُٹ گئی شادمانی میری
یہ کہاں آگئی ہے کہانی میری
اشک کرنے لگے ترجمانی میری
غم کا احساس بھی دل سے جاتا رہا
کس نے لوٹی ہے یوں شادمانی میری
اب نہ خواہش، نہ حسرت، نہ کوئی خلش
کتنی بےکیف ہے زندگانی میری
مطمئن ہوکے بیٹھیں نہ اہلِ جفا
رنگ لائے...
غزل
(ریحانہ نواب)
کسی سے بات کرنا بولنا اچھا نہیں لگتا
تجھے دیکھا ہے جب سے ، دوسرا اچھا نہیں لگتا
تیری آنکھوں میں جب سے میں نے اپنا عکس دیکھا ہے
میرے چہرے کو کوئی آئینہ اچھا نہیں لگتا
تیرے بارے میں دن بھر سوچتی رہتی ہوں میں لیکن
تیرے بارے میں سب سے پوچھنا اچھا نہیں لگتا
یہاں اہلِ محبت عمر...