ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں
سُوئے مقتل ہی ہر رستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں
مُسَلسَل قتل ہونے میں بھی اِک وقفہ ضرُوری ہے
سرِ مقتل ہَمِیں کو، پِھر پُکارا جا رہا ہے کیوں
یہ منشُورِ سِتم! لیکن اِسے ہم مانتے کب ہیں
صحیفے کی طرح ہم پر اُتارا جا رہا ہے کیوں
یہاں اب...
عرصۂ تمنا میں
اہل درد کی خوشبو
افتخار رکھتی ہے
اعتبار رکھتی ہے
یہ گروہِ غم آثار
غم بہ غم بہم ہوکر
خود سے دور ہونے تک
غم سے مہکے جاتا ہے
خالی شیشیاں جیسے
عطر سے مہکتی ہیں
چور چور ہونے تک
کدورتوں کے درمیاں، عداوتوں کے درمیاں
تمام دوست اجنبى ہيں، دوستوں کے درمياں
زمانه ميرى داستاں پہ رو رہا ہے آج كيوں
يہی تو كل سنى گئی تھی قہقہوں کے درمياں
ضمير عصر ميں كبھی ، نوائے درد ميں كبھی
سخن سرا تو ميں بھی ہوں صداقتوں کے درمياں
شعور عصر ڈھونڈتا رہا ہے مجھ كو اور ميں
مگن ہوں عہد...
خون سے جب جلا دیا ایک دیا بجھا ہوا
پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا
ایک ہی داستانِ شب ایک ہی سلسلہ تو ہے
ایک دیا جلا ہوا، ایک دیا بجھا ہوا
محفلِ رنگ و نور کی پھر مجھے یاد آ گئی
پھر مجھے یاد آ گیا ایک دیا بجھا ہوا
مجھ کو نشاط سے فزوں رسمِ وفا عزیز ہے
میرا رفیقِ شب رہا ایک دیا...
تمہیں جفا سے نہ یوں باز آنا چاہیئے تھا
ابھی کچھ اور میرا دل دُکھانا چاہیئے تھا
طویل رات کے پہلو میں کب سے سوئی ہے
نوائے صبح تجھے جاگ جانا چاہیئے تھا
بہت قلق ہوا حیرت زدہ طوفانوں کو
کہ کون ڈوبے کنھیں ڈوب جانا چاہیئے تھا
بجھے چراغوں میں کتنے ہیں جو جلے ہی نہیں
کہ سوئے وقت انہیں جگمگانا...
کب تک کوئی طوفان اُٹھانے کے نہیں ہم
بے صرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم
تعبیر گرو، مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم
جب گفتگو اک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم
اب یوں ہے کہ ہم خود سے ہوئے برسرِ پیکار
مجبوری ہے یا فرض ، بتانے کے...
گھر کی یاد جب صدا دے تو پلٹ کر آجائیں
کاش ہم اپنی خواہش کو میسر آجائیں
ہے کرامت مرے دل کی ترے ناوک کی نہیں
وار ہو ایک مگر زخم بَہتر آجائیں
گفتگو آج تو دو ٹوک کرے گا سورج
ظلِ سبحانی شبستان سے باہر آجائیں
شب کو یلغارِ تفکر سے جو بچ نکلوں میں
صبح دم تازہ خیالات کے لشکر آجائیں
اتنی...
رسوائی کا میلہ تھا سو میں نے نہیں دیکھا
اپنا ہی تماشا تھا سو میں نے نہیں دیکھا
اُس خوابِ تمنا کی تعبیر نہ تھی کوئی
بس خوابِ تمنا تھا سو میں نے نہیں دیکھا
نیرنگئی دنیا کا منظر تھا حسیں لیکن
اس سر میں بھی سودا تھا سو میں نے نہیں دیکھا
پیاسے تو رہے لیکن توقیر نہیں کھوئی
دریا جو پرایا...
غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
سایہء وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
وقت نے آرزو کی لَو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل...
غزل
پسِ غبار جواِک آشنا سا چہرا ہے
وہ مجھ کو بُوجھ رہا ہو اگر تو اچھّا ہے
اب ایک عمر کی محرومیوں کے بعد یہ وصل
فریبِ دیدہ ودل ہے کہ خواب دیکھا ہے
عجب نہیں کہ ہمارے بھی لب ہنسے ہوں کبھی
ہجومِ غم میں بھلا کس کو یا د رہتا ہے
مری نظر میں یہ انداز بے یقینی کا
فریبِ عہدِ بہاراں کے بعد...
غزل
میری غزلوں کی جاں ہو گئے
وہ مری داستاں ہو گئے
اُن کو اتنا پُکارا کہ وہ
میری طرزِ فغاں ہو گئے
مجھ کو تلقینِ صبر و رضا
اور خود آسماں ہو گئے
خوگرِ رنج کرکے مجھے
ناگہاں مہرباں ہو گئے
آنسوؤ کچھ مداوہ کرو
ہائے وہ بد گماں ہو گئے
کوئی تو میرے دکھ بانٹ لے
یو ں تو سب ہم زباں ہو...
غزل
میں سمجھا مری گھٹن مٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو دیا بجھانے آیا تھا
موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا لیکن
کیا آیا بس خاک اُڑانے آیا تھا
چشم زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا
مہر نشاں، زرکار قبا، وہ یار مرا
مجھ کو سنہرے خواب دکھانے آیا تھا
خالی چھتری دیکھ...
غزل
اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسیری کی سزا دی جائے
دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے
اُس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی وقت کی آواز بنادی جائے
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور مری شب سے ملا دی...
غزل
درد ہے کہ نغمہ ہے فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے
آپ کتنے سادہ ہیںچاہتے ہیں بس ایسا
ظلم کے اندھیرے کو رات کہ دیا جائے
آج سب ہیں بے قیمت گریہ بھی تبسّم بھی
دل میں ہنس لیا جائے ، دل میں رو لیا جائے
بے حسی کی دنیا سے دو سوال میرے بھی
کب تلک جیا جائے اور کیوں جیا جائے...
غزل
زمانہ میری شکستِ دل کا سوال ہی کیوں اُٹھا رہا ہے
ابھی مرے زخم ہنس رہے ہیں، ابھی مرا درد گا رہا ہے
میں کب سے اُس تندیء ہوا کے مقابلے پر ڈٹا ہوا تھا
مگر یہ اک دستِ محرمانہ جو آج مجھ کو بُجھا رہا ہے
عجیب بیگانگی کی رُت ہے، ہر ایک پہچان کھو گئی ہے
اب ایسے عالم میں دشتِ قاتل ہے ایک جو...
غزل
سفر نصیب ہیں ہم کو سفر میں رہنے دو
سفالِ جاں کو کفِ کوزہ گر میں رہنے دو
ہمیں خبر ہے کسے اعتبار کہتے ہیں
سخن گروں کو صفِ معتبر میں رہنے دو
تمھاری خیرہ سری بھی جواز ڈھونڈے گی
بلا سے کوئی بھی سودا ہو سر میں رہنے دو
یہ برگ و بار بھی لے جاؤ چُوبِ جاں بھی مگر
نمو کی ایک رمق تو شجر...
میرے کام بہت آتا ہے اک انجانا غم
روز خوشی میں ڈھل جاتا ہے اک انجانا غم
دن بھر میں اور کارِ زمانہ لیکن شام ڈھلے
ساتھ مرے گھر آ جاتا ہے اک انجانا غم
جانے پہچانے سارے غم بجھنے لگتے ہیں
اس دل پر جب لہراتا ہے اک انجانا غم
کتنے ہی دفتر فکر و سخن کے لکھ ڈالے تو کُھلا
بس اتنا احوال لکھا ہے...
میں کب سے اپنی تلاش میں ہوں، ملا نہیں ہوں
سوال یہ ہے کہ میں کہیں ہوں بھی، یا نہیں ہوں
یہ میرے ہونے اور نہ ہونے سے منکشف ہے
کہ رزمِ ہستی میں کیا ہوں میں اور کیا نہیں ہوں
میں شب نژادوں میں صبحِ فردا کی آرزو ہوں
میں اپنے امکاں میں روشنی ہوں، صبا نہیں ہوں
گلاب کی طرح عشق میرا مہک رہا ہے...
اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
تشہیر کے بازار میں اے تازہ خریدار
زیبائشیں مل جائیں گی قامت نہ ملے گی
لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
سوچا ہی نہ تھا یوں بھی اسے یاد رکھیں گے
جب اس کو بھلانے کی بھی فرصت نہ ملے گی...