آرزو لکھنوی

  1. سیما علی

    - 16؍اپریل 1951!!!! معروف شاعر ”#آرزوؔ_لکھنؤی صاحب“ کا یومِ وفات...

    آج - 16؍اپریل 1951 ممتاز قبل از جدید شاعر، جگر مرادآبادی کے معاصر اور معروف شاعر ”#آرزوؔ_لکھنؤی صاحب“ کا یومِ وفات... نام #سیّد_انور_حسین، عرف #منجھو_صاحب، اور تخلص #آرزوؔ تھا۔ 17؍فروری 1873ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میر ذاکر حسین ،یاسؔ تخلص کرتے تھے۔ جناب آرزو کو بہت کم سنی سے شعرو...
  2. اَبُو مدین

    یہ داستانِ دل ہے کیا ہو ادا زباں سے۔ آرزو لکھنوی

    یہ داستانِ دل ہے کیا ہو ادا زباں سے آنسو ٹپک رہے ہیں لفظیں ملیں کہاں سے ہے ربط دو دلوں کو بے ربطئ بیاں سے کچھ وہ کہیں نظر سے کچھ ہم کہیں زباں سے یہ روتے روتے ہنسنا ترتیب ذکرِ غم ہے آیا ہوں ابتدا پر چھیڑا تھا درمیاں سے اس رازدارِ غم کی حالت نہ پوچھ جس کو کہنا تو ہے بہت کچھ محروم ہے زباں سے ہر...
  3. راشد اشرف

    علامہ آرزو لکھنوی، ڈاکٹر افضال احمد، نظامی پریس لکھنو-1982

    علامہ آرزو لکھنوی، ڈاکٹر افضال احمد، نظامی پریس لکھنو-1982 آرزو لکھنوی پر راقم کی نظر سے کوئی تحقیقی کتاب نہیں گزری، یقینا یہ میری لاعلمی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ گزشتہ برس پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے ملنے والی ایک کتاب جو لکھنو کے ڈاکٹر افضال احمد کے مضامین و خآکوں پر مشتمل تھی، کے مطالعے کے...
  4. کاشفی

    مناقب و مدحت اہلِ بیت

    جب خدا کو پکارا علی آگئے (پروفیسر سبطِ جعفر شہید)
  5. طارق شاہ

    آرزو لکھنوی :::: ضبطِ غمِ دل آساں، اظہارِ وفا مُمکن -- Aarzoo Lakhnavi

    غزلِ آرزو لکھنوی ضبطِ غمِ دل آساں، اظہارِ وفا مُمکن ہونے کو یہ سب مُمکن، مِلنا ترا نا مُمکن نالوں کا اثر مُمکن ، تاثیرِ دُعا ممکن اِس ہونے پہ ہر شے کے، کچھ بھی نہ ہُوا ممکن اِس عالمِ اِمکان میں کیا ہے، جو ہے نا ممکن ڈھونڈو تو مِلے عنقا ، چاہو تو خُدا ممکن جس کو تِری خواہش میں، دُنیا سے...
  6. طارق شاہ

    آرزو لکھنوی :::: کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی -- Aarzoo Lakhnavi

    غزلِ آرزو لکھنوی کِس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی جُھوم کے آئی گھٹا ، ٹُوٹ کے برسا پانی رُولئے پُھوٹ کے ، سینے میں جلن اب کیوں ہے آگ پگھلا کے نِکالا ہے یہ جلتا پانی کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی اُمنگ جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی ٹکٹکی باندھے وہ پھرتے ہیں میں اِس فکر میں...
  7. طارق شاہ

    آرزو لکھنوی " دیکھیں محشر میں اُن سے کیا ٹہرے "

    غزل آرزو لکھنوی دیکھیں محشر میں اُن سے کیا ٹہرے تھے وہی بُت وہی خدا ٹہرے ٹہرے اس در پہ یوں تو کیا ٹہرے بن کے زنجیر بے صدا ٹہرے سانس ٹہرے تو دم ذرا ٹہرے تیز آندھی میں شمع کیا ٹہرے زندگانی ہے بس اک نفس کا شمار بے ہوا یہ چراغ کیا ٹہرے جس کو تم لا دوا بتاتے ہو تمہِیں اُس درد کی دوا...
  8. فرخ منظور

    اوّل شب وہ بزم کی رونقِ شمع بھی تھی پروانہ بھی ۔ آرزو لکھنوی

    غزل اوّل شب وہ بزم کی رونقِ شمع بھی تھی پروانہ بھی رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی قید کو توڑ کے نکلا جب میں اُٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی ایک لگی کے دو ہیں اثر...
Top