غزل
صبؔا اکبر آبادی
جو دیکھیے، تو کرم عِشق پر ذرا بھی نہیں
جو سوچیے کہ خَفا ہیں، تو وہ خَفا بھی نہیں
وہ اور ہوں گے، جِنھیں مُقدِرت ہے نالوں کی!
ہَمَیں تو حوصلۂ آہِ نارَسا بھی نہیں
حدِ طَلب سے ہے آگے، جنُوں کا استغنا
لَبوں پہ آپ سے مِلنے کی اب دُعا بھی نہیں
حصُول ہو ہَمَیں کیا مُدّعا محبّت...
غزل
کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم
اُلجھے ہُوئے ہیں آج بھی دُنیا و دِیں سے ہم
یُوں بیٹھتے ہیں بزم میں خلوت گزِیں سے ہم
لے جائیں اپنے اشک بھی چُن کر زمِیں سے ہم
ہر روز اُن کے نام کے سَو پُھول کِھلتے ہیں
چُن کر قَفس میں لائے ہیں کلیاں کہیں سے ہم
جب تک تمھارے قدموں کی آہٹ نہیں سُنیں...