غزل
کشِش جو ہوتی نہاں حرف ِاعتبار میں ہے
اُسےسمجھنا بَھلا کِس کے اِختیار میں ہے
دلِ و دماغ معطّر تو کرگئی، لیکن!
بَلا کا درد چُھپا مشکِ خوشگوار میں ہے
یہ راز کب سے نہاں ہے، سمجھ نہ آیا کبھی
عجب قرار و سُکوں چشمِ انتظا ر میں ہے
بھٹکتی ،سر کو پٹختی ہُوئی صَدائے غم
بتاؤں کیسے، کہ وہ بھی مِرے...