غزلِ
یہ حادثہ بھی تو کُچھ کم نہ تھا صبا کے لِیے
گُلوں نے کِس لِیے بوسے تِری قبا کے لِیے
وہاں زمِین پہ اُن کا قدم نہیں پڑتا
یہاں ترستے ہیں ہم لوگ نقش پا کے لِیے
تم اپنی زُلف بکھیرو، کہ آسماں کو بھی !
بہانہ چاہیے محشر کے اِلتوا کے لِیے
یہ کِس نے پیار کی شمعوں کو بَد دُعا دی ہے
اُجاڑ...
غزلِ
پُھونک ڈالے تپشِ غم تو بُرا بھی کیا ہے
چند یادوں کے سِوا دِل میں رہا بھی کیا ہے
بے نوا ہوگا نہ اِس شہر میں ہم سا کوئی
زندگی تجھ سے مگر ہم کو گِلہ بھی کیا ہے
کہِیں اِک آہ میں افسانے بَیاں ہوتے ہیں ؟
ہم نے اُس دشمنِ ارماں سے کہا بھی کیا ہے
کیا کرے، تھک کے اگر بیٹھ نہ جائے دِلِ زار...