اس بار تو دل کی بازی میں اے جانِ جاں، سب ہار دیا
زر ہار دیا، سر ہار دیا، ظاہر پہناں، سب ہار دیا
جب عشقِ حقیقی نے دل کے دروازے پر آ دستک دی
جاں سحر زدہ سی اُٹھ بیٹھی جو کچھ تھا جہاں، سب ہار دیا
تھیں وصل کی راہیں تنگ بہت سو بھاری گٹھڑپھینک دئیے
دنیا کی ہوس دنیا کی متاع اک بارِ گراں، سب ہار دیا...