غزلِ
سیّد فخرالدّین بلے
ہے آب آب موج بِپھرنے کے باوجُود
دُنیا سِمٹ رہی ہے بِکھیرنے کے باوجُود
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفَس پہ موت سے ڈرنے کے باوجُود
اِس بحرِ کائِنات میں ہر کشتیِ انا
غرقاب ہوگئی ہے اُبھرنے کے باوجُود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہُوئے ہیں...