غزل
دُھوپ کو اوڑھ کر چھاؤں سے نکل کر آتے
اپنے قدموں سے میرے گھر کبھی چل کر آتے
ذہن، نایافت بشارت کا سمندر ہوتا
حرف، تہذیب کی خوشبو میں جو پَل کر آتے
اس الاؤ سے مجھے خوف بہت آتا ہے
اجنبی، پیار کے کپڑے تو بدل کر آتے
سہل فردا کے تقاضوں کی مسافت ہوتی
غمِ دیروز سے باہر جو نکل کر...
غزل
دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے
تم جو میری بات سنے بن چل دیتے
رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے
رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا
سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے
آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں
روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے
تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی...