غزل
(سید محمد حنیف اخگر)
لذت بادہ سے تلخی کا مزا یاد آیا
حسب توفیق شفا زہر دوا یاد آیا
جراءت ترک تمنا کا خیال آتے ہی
عہد پابندیء آداب وفا یاد آیا
اختصار شب وعدہ کی شکایت پہ اُسے
شب ہجراں کی درازی کا گلہ یاد آیا
دل کو احساس مسرت ہی بہت تھا لیکن
تیرے غم میں تھی وہ لذت کہ خدا یاد...
غزل
(سید محمد حنیف اخگر)
غم ترک وفا ہی غم کا پیمانہ نہیں ہوتا
ہر آنسو دل کی بیتابی کا افسانہ نہیں ہوتا
کوئی ساغر پہ ساغر پی رہا ہے کوئی تشنہ ہے
مرتب اس طرح آئین میخانہ نہیں ہوتا
شناسا ہے دل اس کی ہر ادائے بے نیازی سے
وہ بیگانہ بھی ہوکر ہم سے بیگانہ نہیں ہوتا
نقاب رخ الٹ کر وہ...
غزل
(سید محمد حنیف اخگر)
پلکوں پہ دل کا رنگ فروزاں نہیں رہا
اب ایک بھی دیا سرِ مژگاں نہیں رہا
قلبِ گداز و دیدہء تر تو ہے اپنے پاس
میں شاد ہوں کہ بے سروساماں نہیں رہا
آنکھوں میں جل اُٹھے ہیں دیئے انتظار کے
احساسِ ظلمتِ شبِ ہجراں نہیں رہا
تُجھ سے بچھڑ کے آج بھی زندہ تو ہُوں مگر
وہ...
غزل
(سید محمد حنیف اخگر)
وہ سُنا رہے تھے لیکن نہ سنا گیا فسانہ
ذرا آنکھ لگ گئی تھی کہ گزر گیا زمانہ
غم نو بہ نو کی زد سے ہے محال دل بچانا
کبھی دکھ کے تازیانے کبھی درد کا فسانہ
اسی کشمکش میں الفت کا گزر گیا زمانہ
کبھی آپ ہچکچائے کبھی دل کہا نہ مانا
کہیں تم بھی ہو نہ جانا مری...
غزل
(سید محمد حنیف اخگر ملیح آبادی - ہندوستان و کراچی پاکستان ، امریکہ)
دشواریوں نے راہ کو آساں بنا دیا
ہر مرحلے کو منزلِ جاناں بنا دیا
کتنی تھی تابِ حسن کہ اُس کی نگاہ نے
ہر آرزو کو شعلہ بداماں بنا دیا
چارہ گروں کی شعبدہ بازی پہ دل نثار
درماں کو درد، درد کو درماں بنا دیا
محدودِ...