غزل
(صدف مرزا)
کِیا کرتی ہوں تنہائی میں اشکوں سے وضو اکثر
تصور میں رہا کرتی ہے، تجھ سے گفتگو اکثر
تری آنکھوں میں خود کو ڈھونڈتی ہوں اس لئے شاید
کہ اپنی ہی رہا کرتی ہے مجھ کو جستجو اکثر
تکا کرتی ہوں تنہا بیٹھ کر پہروں جو پھولوں کو
تمہاری ان میں ہوتی ہے شباہت ہو بہو اکثر
وہ رازِ...
بابل
(صدف مرزا)
میرے لہو میں دیئے جس کے خوں کے جلتے ہیں
نقوش جس کے میرے خال و خد میں ڈھلتے ہیں
مہک سے جس کی گُل و لالہ مجھ میں کھلتے ہیں
میری ہنسی میں سبھی رنگ اس کے ملتے ہیں
وہ جس کی تھام کے انگلی کو چلنا سیکھا تھا
قلم سے اس کے ہی میں نے یہ لکھنا سیکھا تھا
وہ جس نے پڑھنا مجھے حرف...
بیٹیاں پھول ہیں۔۔۔۔
(صدف مرزا - ڈنمارک)
جناب محمود شام کی اثر آفریں نظم سے متاثر ہو کر۔۔۔۔۔۔
بیٹیاں پھول ہیں۔۔۔۔
اور پھول کے مقدر میں
بالآخر بکھرنا ہے
انہیں تو بس مہکنا ہے
سجا دو سیج پر چاہے
چڑھا دو یا مزاروں پر
سہرے میں انہیں گوندھو
لگا دو یا کہ مدفن میں
انہیں تو رنگ بھرنا ہے...
غزل
(صدف مرزا - کوپن ہیگن، ڈنمارک )
نہ شیشے کا گھر ہے، نہ پتھر کا ڈر ہے
یہ دل تو کھنڈر ہے، اسے کیا خطر ہے
نہ دل میں شرر ہے، نہ ہی چشم تر ہے
الہٰی دعا میری کیوں بے اثر ہے؟
نہ کاٹے سے کٹتی ہے یہ راہ الفت
یہ کیسی ڈگر ہے، یہ کیسا سفر ہے؟
مرا داغِ دل ہے، مری چشمِ نم ہے
یہ رشکِ...