شاید میں زندگی کی سحر لے کے آ گیا
قاتل کو آج اپنے ہی گھر لے کے آ گیا
تا عمر ڈھونڈھتا رہا منزل میں عشق کی
انجام یہ کہ گردِ سفر لے کے آ گیا
نشتر ہے میرے ہاتھ میں کاندھوں پہ مے کدہ
لو میں علاج دردِ جگر لے کے آ گیا
فاکرؔ صنم کدے میں نہ آتا میں لوٹ کر
اک زخم بھر گیا تھا ادھر لے کے آ گیا...
عشق میں غیرتِ جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب
عمر بھر آپ کی اسِ بات نے رونے نہ دیا
رونے والوں سے کہو اُن کا بھی رونا رو لیں
جن کو مجبورئ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا، بہت رونا تھا
تنگیٔ وقتِ ملاقات نے...
غزل
(سدرشن فاکر)
اگر ہم کہیں اور وہ مُسکرا دیں
ہم ان کے لیے زندگانی لُٹا دیں
ہر اک موڑ پر ہم غموں کو سزا دیں
چلو زندگی کو محبت بنا دیں
اگر خود کو بھولے تو کچھ بھی نہ بھولے
کہ چاہت میں ان کی خدا کو بھلا دیں
کبھی غم کی آندھی جنہیں چھو نہ پائے
وفاؤں کے ہم وہ نشیمن بنا دیں
قیامت کے دیوانے کہتے...
یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
کسے کیا خبر ہے کہاں ٹوٹ جائیں
محبت کے دریا میں تنکے وفا کے
نہ جانے یہ کس موڑ پر ڈوب جائیں
عجب دل کی بستی عجب دل کی وادی
ہر اک موڑ موسم نئی خواہشوں کا
لگائے ہیں ہم نے بھی سپنوں کے پودے
مگر کیا بھروسہ یہاں بارشوں کا...