کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا
اور کچھ تلخیِ حالات نے دل توڑ دیا
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
دل تو روتا رہے اور آنکھ سے آنسو نہ بہے
عشق کی ایسی روایات نے دل توڑ دیا
وہ مرے ہیں مجھے مل جائیں گے آ جائیں گے
ایسے بے کار خیالات نے دل توڑ...
غزل
(سدرشن فاخر)
پتھر کے خدا، پتھر کے صنم، پتھر کے ہی انساں پائے ہیں
تم شہرِ محبت کہتے ہو ہم جان بچا کر آئے ہیں
بت خانہ سمجھتے ہو جس کو پوچھو نہ وہاں کیا حالت ہے
ہم لوگ وہیں سے لوٹے ہیں بس شکر کرو لوٹ آئے ہیں
ہم سوچ رہے ہیں مدت سے اب عمر گزاریں بھی تو کہاں
صحرا میں خوشی کے پھول نہیں شہروں...
غزل
(سدرشن فاخر)
اگر ہم کہیں اور وہ مسکرا دیں
ہم ان کے لیے زندگانی لٹا دیں
ہر اک موڑ پر ہم غموں کو سزا دیں
چلو زندگی کو محبت بنا دیں
اگر خود کو بھولے تو کچھ بھی نہ بھولے
کہ چاہت میں ان کی خدا کو بھلا دیں
کبھی غم کی آندھی جنہیں چھو نہ پائے
وفاؤں کے ہم وہ نشیمن بنا دیں
قیامت کے دیوانے...
فلسفے عشق میں پیش آئے سوالوں کی طرح
ہم پریشاں ہی رہے اپنے خیالوں کی طرح
شیشہ گر بیٹھے رہے ذکرِ مسیحا لے کر
اور ہم ٹوٹ گئے کانچ کے پیالوں کی طرح
جب بھی انجامِ محبت نے پکارا خود کو
وقت نے پیش کیا ہم کو مثالوں کی طرح
ذکر جب ہوگا محبت میں تباہی کا کہیں
یاد ہم آئیں گے دنیا کو...
زندگي، تجھ کو جيا ہے، کوئي افسوس نہيں
زہر خود ميں نے پيا ہے، کوئي افسوس نہيں
ميں نے مجرم کو بھي مجرم نہ کہا دنيا ميں
بس يہي جرم کيا ہے، کوئي افسوس نہيں
ميري قسمت ميں جو لکھے تھے، انہي کانٹوں سے
دل کے زخموں کو سيا ہے، کوئي افسوس نہيں
اب گرے سنگ کہ شيشوں کي ہو بارش، فاخر
اب کفن اوڑھ...