غزل
صفؔی لکھنوی
ذرّے ذرّے میں ہے جلوہ تِری یکتائ کا
دِلِ اِنساں میں، جو ہو شوق شناسائ کا
موت ہی قصد نہ کرتی جو مسیحائ کا
کون پُرساں تھا مَرِیضِ شَبِ تنہائ کا
میری خوشبُو سے ہیں، آزاد ہَوائیں لبریز
عطرِ دامن ہُوں قبائے گُلِ صحرائ کا
تا سَحر چشمِ تصوُّر میں رہی اِک تصوِیر
دِل سے ممنُون ہُوں...