آصف شفیع

  1. آصف شفیع

    تیری صورت کی بات کرتے ہیں- آصف شفیع

    غزل تیری صورت کی بات کرتے ہیں پھول فطرت کی بات کرتے ہیں چھیڑیے اضطراب کا نغمہ آج وحشت کی بات کرتے ہیں سانس کو راستہ نہیں ملتا آپ ہجرت کی بات کرتے ہیں! ہم کو نفرت سے دیکھنے والو! ہم محبت کی بات کرتے ہیں اتنی تمہید کس لیے آصفؔ بس ضرورت کی بات کرتے ہیں
  2. آصف شفیع

    آنکھ کھل جائے گی۔ آصف شفیع

    ایک غزل: آنکھ کھل جائے گی تو خواب ادھورا ہوگا کس نے سوچا تھا مری جان! کہ ایسا ہوگا اب بھی کچھ وقت ہے خواہش پہ لگا لو پہرے بات جب حد سے بڑھے گی تو تماشا ہوگا وہ بچھڑنے کی گھڑی کتنی کڑی تھی اس پر مجھ کو معلوم ہے اُس رات وہ رویا ہوگا گزرے لمحوں کی اسے یاد تو آتی ہوگی جانے کیا سوچ کے آنگن میں ٹہلتا...
  3. آصف شفیع

    وہ کیسے خواب لمحے تھے۔ آصف شفیع

    ایک بہت پرانی نظم آج نظر سے گزری۔ احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت چاہوں گا۔ وہ کیسے خواب لمحے تھے صبا پیغام لائی تھی گلوں کی بے قراری کا عجب دیوانگی سی تھی خزاں دیدہ فضاؤں میں ردائے خوف نے سب کو چھپا رکھا تھا دامن میں کہیں شبنم بہاتی تھی زمیں پر خون کے آنسو کہیں کلیوں کے ہونٹوں سے تبسم روٹھ...
  4. آصف شفیع

    کہ شہرت یار تک پہنچے- آصف شفیع

    چھوٹی بحر ہی میں ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔ کہ شہرت یار تک پہنچے سو ہم اِس دار تک پہنچے سبھی طوفاں سے الجھے ہیں کوئی تو پار تک پہنچے! یہ ممکن ہے، مرا سایہ تری دیوار تک پہنچے یہ کچھ کم تو نہیں ہے، ہم کسی معیار تک پہنچے یہی تو ہے کمالِ فن ہنر اغیار تک پہنچے کہیں ایسا نہ ہو قصہ ترے انکار تک پہنچے ہو...
  5. آصف شفیع

    کئی زمانوں کا راستہ تھا۔ آصف شفیع

    دو غزلیں جو ایک ہی تسلسل میں کہی گئی تھی، ملاحظہ کیجیے.  کئی زمانوں کا راستہ تھا وہ ایک لمحہ جو کھو گیا تھا نجوم و مہ کی بلندیوں سے زمیں کو شب بھر میں دیکھتا تھا وہ میرے حصے کی روشنی تھی جسے میں اوروں میں بانٹتا تھا نئے سفر کا جواز لے کر خلا سے بھی میں گزر گیا تھا تھکن کا احساس راستے میں کہیں...
  6. آصف شفیع

    پل میں دل توڑ دے کسی کا- آصف شفیع

    ایک غزل پیش خدمت ہے۔ پل میں دل توڑ دے کسی کا منصب یہ نہیں ہے آدمی کا آواز کو راستہ ملا ہے اعجاز ہے میری خامشی کا اک شمع خیال جل اٹھی ہے اک باغ کھلا ہے شاعری کا چہروں سے لہو ٹپک رہا ہے پیغام دو کچھ تو آشتی کا دنیا کی مجال کچھ نہیں ہے بخشا ہوا سب ہے آپ ہی کا کس دور کی بات کر رہے ہو کوئی بھی...
  7. ف

    کبھی وقت ملے تو آ جاؤ----- از آصف شفیع

    کبھی وقت ملے تو آجاؤ ہم جھیل کنارے مل بیٹھیں تم اپنے سکھ کی بات کرو ہم اپنے دکھ کی بات کریں ہم ان لمحوں کی بات کریں جو ساتھ تمہارے بیت گئے اور عہدِ خزاں کی نذر ہوئے ہم شہرِِ خواب کے باسی اور تم چاند ستاروں کی ملکہ ان سبز رتوں کے دامن میں ہم پیار کی خوشبو مہکائیں ان بکھرے سبز نظاروں...
  8. آصف شفیع

    سیلاب کی صورت حال پر ایک نظم- آصف شفیع

    آؤ توبہ کریں لمحہءفکر ہے یہ مرے دوستو! کتنی مشکل گھڑی آ پڑی قوم پر کیسی آفت ہے یہ، کیا مصیبت ہے یہ ہر طرف اک بلاخیز سیلاب ہے جو کہ رکتا نہیں ایک بپھرا ہوا بحرِ پر زور ہے کوئی گھر، کوئی دیوار یا کوئی بند اس کے آگے کسی پل ٹھہرتا نہیں اور کناروں کے جس کے کوئی حد نہیں سمت کی جس کا کوئی...
  9. آصف شفیع

    پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے۔۔۔۔ آصف شفیع

    ایک غزل احباب کی نذر: پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے جس کا نشہ ابھی اتارا ہے راز یہ دل پہ آشکارا ہے تو محبت کا استعارا ہے اک طرف ہجر کی مسافت ہے اک طرف درد کا کنارا ہے کس طرح میں جدا کروں تجھ کو تو مجھے جان سے بھی پیارا ہے دلِ بےتاب روٹھ مت جانا تو مرا آخری سہارا ہے زندگانی کا...
  10. آصف شفیع

    یہ بھٹکنا فقط بہانہ ہے۔۔ آصف شفیع

    ایک غزل احباب کی خدمت میںً۔ آرا کا نتظار رہے گا۔ غزل: یہ بھٹکنا فقط بہانہ ہے سب کے پیشِ نظر خزانہ ہے کل وہاں خاک بھی نہیں ہو گی آج میرا جہاں ٹھکانہ ہے میرے حصے میں آئے گا اک دن میری قسمت میں جو بھی دانہ ہے آندھیوں کو خبر نہیں شاید شاخ ہی میرا آشیانہ ہے آپ عادی پرانے وقتوں کے...
  11. آصف شفیع

    نعت --- آصف شفیع

    نعت کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں۔ احباب کی آرا کا انتظار رہے گا۔ زائروں کی ہے ہر گھڑی معراج سیرِ طیبہ ہے عشق کی معراج کس بلندی پہ لے کے آئی ہے آدمیت کو آپ کی معراج میزبانی کے استعارے ہیں روح، براق، آگہی، معراج ان کے روضے کو دیکھ آیا ہوں اس سے بڑھ کر نہیں کوئی معراج مل گئی مدحتِ...
  12. ف

    کیا عجم ، کیا عرب محبت میں - از آصف شفیع

    www.onlineurdu.com پر آصف شفیع کی یہ غزلیں پڑھیں ۔ یہ غزل پسند آئی۔ نہیں ہوتا نسب محبت میں کیا عجم ، کیا عرب محبت میں ہم نے اک زندگی گزاری ہے تم تو آئے ہو اب محبت میں اور کیا کلفتیں اٹھاتے ہم ہو گئے جاں بلب محبت میں خامشی ہی زبان ہوتی ہے بولتے کب ہیں لب محبت میں آگہی کے جہان...
  13. آصف شفیع

    عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے ۔۔ آصف شفیع

    احبابِ محفل! آداب، آج کل محفل میں خاموشی کیوں ہے؟ بہت کم لوگ اپنا کلام پوسٹ کر رہے ہیں۔ کیا سب مصروف ہو گئے ہیں؟ چلیں اس خاموشی کو توڑتے ہیں اور میں اپنی کتاب " کوئی پھول دل میں کھلا نہیں" سے ایک غزل پیش کرتا ہوں۔ عشق میں پہلے ڈرتے تھے بربادی سے ہوتے ہوتے ہو گئے ہیں اب عادی سے پیار کہانی...
  14. آصف شفیع

    عرصہء زیست جاودانی ہے۔ آصف شفیع

    ایک غزل پیش خدمت ہے۔ عرصہء زیست جاودانی ہے یہ فقط میری خوش گمانی ہے دوست! اپنا وجود کیا معنی میں بھی فانی ہوں تو بھی فانی ہے اک محبت فنا نہیں ہوتی ورنہ ہر چیز آنی جانی ہے ہر کوئی مست ہے نمایش میں پیار کی کس نے قدر جانی ہے دیکھ ! تو بھی پلٹ کے آ جانا میں نے بھی تیری بات مانی...
  15. آصف شفیع

    عشق نے کیا کیا کام لیے ہیں۔ آصف شفیع

    میر کی زمین میں ایک غزل۔ ( احباب سے رائے درکار ہے) عشق نے کیا کیا کام لیے ہیں ہم جیسے ناداروں سے "گلیوں گلیوں خوار پھرے ہم، سر مارے دیواروں سے" رفتہ رفتہ دور ہوئے جاتے ہیں اپنے پیاروں سے یارو! ہم تو دور ہی اچھے درہموں سے، دیناروں سے جانے والوں کو تو مانا، اک دن چھوڑ کے جانا ہے برسوں...
  16. آصف شفیع

    آشنائی کبھی ہوتی نہیں چلتے چلتے۔ آصف شفیع

    غزل: آشنائی کبھی ہوتی نہیں چلتے چلتے وقت لگتا ہے کسی رنگ میں ڈھلتے ڈھلتے ایک دن کہہ ہی دیا اُس نے، مجھے جانا ہے ایک دن ہو ہی گیا سانحہ ٹلتے ٹلتے کیا بتائیں کسے چاہا، کسے پایا ہم نے عمر گزری کفِ افسوس ہی ملتے ملتے ایک پل کو بھی نہیں وصل کا موسم دیکھا زندگی بیت گئی ہجر میں جلتے جلتے...
  17. فرخ منظور

    خوابِ خوش رنگ - آصف شفیع

    دل سے ملتا ہے سلسلہ دل کا کون سمجھے معاملہ دل کا لفظ اشکوں سے جگمگاتے ہیں نعت ہوتی ہے آئنہ دل کا تیرگی چھٹ گئی زمانے سے کس نے روشن کیا دیا دل کا اہلِ دنیا حرم سے لوٹ آئے اس سے آگے تھا مرحلہ دل کا سبز گنبد کے سائے میں اک دن جا کے ٹھہرے گا قافلہ دل کا ہو نہ سوزِ دروُں تو پھر...
  18. عمران شناور

    گزرتے موسموں کی یاد کو زنجیر کر لیتے --- آصف شفیع

    گزرتے موسموں کی یاد کو زنجیر کر لیتے اگر ہم روز و شب کی ڈائری تحریر کر لیتے محبت نفرتوں کے دور میں ایسے نہ کم ہوتی اگر کچھ لوگ ہی کردار کی تعمیر کر لیتے نہیں ہے دکھ بچھڑنے کا مگر دل میں یہ حسرت ہے تمہارا پھول سا چہرہ تو ہم تصویر کر لیتے ہمارے پیار کا قصہ سناتا ہرکس و ناکس ہم...
  19. ف

    زخموں کو تم پھول کہو اور مت دیکھو کوئی خواب - آصف شفیع

    مجھے آصف شفیع کی کتاب تیرے ہمراہ چلنا ہے سے یہ غزل پسند آئی۔ آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں۔ زخموں کو تم پھول کہو اور مت دیکھو کوئی خواب جینے ہے تو سیکھنے ہوں گے جینے کے آداب جانے کیا کچھ سوچتے سوچتے آنکھیں ہو گئیں نم حد نظر تک سامنے تھا اک اشکوں کا تالاب اتنی جلدی جاناں! کیسے فصل ہری یہ...
Top