اتنا دل گیر ہو کے جانا ہے
آنکھ سے نیر ہو کے جانا ہے
رنگ لمحوں کو کیسے تھامتے ہیں
آج تصویر ہو کے جانا ہے
آدمی کِتنا ٹوٹ جاتا ہے
میں نے تعمیر ہو کے جانا ہے
لفظ مضمون میں ڈھلا کیسے
خود پہ تحریر ہو کے جانا ہے
رُتبہ ِ دشت و آبلہ پائی
پاء بازنجیر ہو کے...
جب بھی تیرے راستے سے گزرے ہیں
دل میں لاکھوں حادثے سے گزرے ہیں
میں بھی اُن کی قربتوں سے ڈر گیا ہوں
وہ بھی اب کے فاصلے سے گزرے ہیں
جو تھا تو اِستعاروں سا نہیں تھا
وہی تارا تھا تاروں سا نہیں تھا
کبوتر ہم بھی بن نہ پائے لوگوں
زمانہ بھی مزاروں سا نہیں تھا
جہاں مجزوب دیکھا ہے زمیں پر
خُدا مطلوب...
یہ زندگی جو بِتاؤں تو مارا جا ؤں گا
اور اس سے آنکھ چُراؤں تو مارا جاؤں گا
یہ صُلح جُوئی ہے اک جُرم اپنے مسلک میں
جو خُود کو خُود سے مِلاؤں تو مارا جاؤں گا
امیرِ شہر کی جِن عادتوں سے واقِف ہوں
نقاب اُن سے اُٹھاؤں تو مارا جاؤں گا
مری فضاؤں میں پرواز دُشمنوں کی ہے
دیا جو آج جلاؤں تو مارا جاؤں گا...
پھِر ہوا ہے درد دامن گیر کُچھ
اور بچنے کی نہیں تدبیر کُچھ
تنکا تنکا کر دیا پِھر آشیاں
شوق پِھر کرنے لگا تعمیر کُچھ
میں نے جن خوابوں کو جانا آشتی
اُن کی دیکھی اور ہی تعبیر کُچھ
بند آنکھوں کے تصور اور تھے
کُھل گئیں تو اور تھی تصویر کُچھ
راہ میں دیوار بھی تھا اک دیا
پاؤں میں بھی تھی ہوا زنجیر...
جبراً ہم اپنی کھال میں ہی بھر دیے گئے
اس پر ستم ہزار ہمیں سر دیے گئے
کیسے تھے لوگ جن کے اُفق بھر دیے گئے
اور ہم کو ساحلوں کے سمندر دیے گئے
آنکھیں جو گُھورتی تھیں سبھی نوچ لی گئیں
اُٹھتے ہوئے جو سر تھے قلم کر دیے گئے
بستے ، قلم ، کِتاب کہاں ہو سکے نصیب
بچوں کو کھیلنے کے لیے در دیے...
دیر لگتی ہے کہاں خاک کو پتھر ہوتے
وقت کو ٹھیرتے اور آنکھ کو منظر ہوتے
دیکھتے ہم بھی ہواؤں کے نگر کے اس پار
ہم بھی آوارہ صِفت کاش کہ بے گھر ہوتے
ہم بھی چُھو آتے سبھی چاند ، ستارے ، سورج
کاش تجسیم کی اس قید سے باہر ہوتے
خوب غزلوں میں ترے عشق کے چرچے کرتے
میر و غالب کی طرح ہم جو سُخنور ہوتے...
جب آسمان پھوار کی جل تھل سے جلترنگ
مہکار بانٹتا ہو فضاء میں دھنک دھنک
وہ دن جو روشنی میں اُجالے اُجال دے
منشور سے رنگ جس طرح جھانکیں چھنک چھنک
گہرے ہرے شجر کی کسی سرد شاخ میں
جب برگ برگ تالیاں باجیں کھنک کھنک
بہتے سُروں میں گاتی ہوا جھوُم جھوُم اُٹھے
حیران پُھول دیکھتے جائیں پلک پلک...
جھوٹی انا کی پالی دُنیا
رُوکھی ، پھیکی ، کالی دُنیا
ظاہر میں بُراق لبادے
اندر سے ہے خالی دُنیا
رشتے ناتے جھوٹے اس کے
پیسے کی متوالی دُنیا
پیار کی مالا جپتی جائے
نفرت کرنے والی دُنیا
اس کے سارے رنگ ہیں پھیکے
ہم نے ٹھونک بجالی دُنیا
پِھر بھی اپنی سی لگتی ہے
ہم نے بھی اپنا لی دُنیا
ش زاد
جہان بھر کے مسائل ہیں اک سفر میں مُجھے
مگر سمجھتے نہیں لوگ میرے گھر میں مُجھے
نہیں ہوں چاند میں سورج ہوں اور کسی صورت
بسائے بھی تو کہاں تک کوئی نظر میں مُجھے
کچھ اور دن ابھی چلنی ہے بات مقتل کی
کچھ اور دن ابھی رہنا ہے اس خبر میں مُجھے
مِرا قرار بھی لُوٹا تھا میری آنکھوں نے
مِلا سکون...
پرانا سلسلہ رکھے ہوئے ہیں
فلک سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں
تکے ہے آئینہ دو چند ہو کر
بدن کو آئینہ رکھے ہوئے ہیں
سبھی کچھ چھوڑ کر نکلے ہیں لیکن
پلٹ کا راستہ رکھے ہوئے ہیں
دریچے پر رکھی ہم نے سماعت
دیے میں دیکھنا رکھے ہوئے ہیں
سفر رکھا ہے ہم نے دائرے میں
سفر میں دائرہ رکھے ہوئے ہیں...