غزل
شاہوں کا شاہ عشق ہے, صدرِ صدور عشق
دربارِ دل میں تخت نشیں ہے حضور عشق
اس حسنِ خوش ادا کی تجلی میں یوں لگا
موسی ہوں لے گیا ہے سرِ کوہِ طور عشق
اس بار سامنا تھا سلیمان کا تجھے
بلقیس اب کہ ہونا تھا تجھ کو ضرور عشق
صحرا نوردیوں میں کھپاتا ہے قیس کو
کچّے گھڑے پہ کرتا ہے دریا عبور عشق
تیرے...