مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کی غزل "پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا" مختلف گلوکاروں کی آوازوں میں
مہدی حسن
مہدی حسن و ترنم ناز
طلعت محمود
لتا منگیشکر
بیگم اختر
شاہدہ پروین
رجنی پلّوی
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا...
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں
دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں
سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گھلتا ہے
وہ گھڑیاں...