غزل
(شاد عارفی)
چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں
سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں
شراب تلخ پلانے کی بات کرتا ہوں
خود آگہی کو جگانے کی بات کرتا ہوں
سخنوروں کو جلانے کی بات کرتا ہوں
کہ جاگتوں کو جگانے کی بات کرتا ہوں
اُٹھی ہوئی ہے جو رنگینیء تغزل پر
وہ ہر نقاب گرانے کی بات کرتا ہوں
اس انجمن...
غزل
(شاد عارفی)
جو بھی اپنوں سے الجھتا ہے وہ کر کیا لے گا
وقت بکھری ہوئی طاقت کا اثر کیا لے گا
خار ہی خار ہیں تاحدِّ نظر دیوانے
ہے یہ دیوانہء انصاف ادھر کیا لے گا
جان پر کھیل بھی جاتا ہے سزاوار قفس
اس بھروسے میں نہ رہیئے گا یہ کر کیا لے گا
پستیء ذوقِ بلندیء نظر ، دار و رسن
ان سے تو مانگنے...
غزل
(شاد عارفی)
دُنیا کی اب حالت یہ ہے دنیا کے یہ نقشے ہیں
اپنا جن کو کہتے ہیں ہم دشمن اُن سے اچھے ہیں
میرے حال پہ ہنسنے والو! مانگو مستقبل کی خیر
مجبوروں پر ہنسنے والے اکثر روتے دیکھے ہیں
آپ کو میرے صحرا کے کانٹو ں پر بستر کا کیا درد
آپ تو پھولوں کے دامن میں نکہت بن کر سوتے ہیں...
بھئی وہ منظر بھی بڑا "حسرتناک" ہوتا ہے جب سارا دفتر یا گھر ایک ایک سے زائد گلاب جامن کھا رہا ہوتا ہے اور آپ بغیر چینی کے کڑوی چائے کے گھونٹ بھر رہے ہوتے ہیں اور ایک ایک گھونٹ کے ساتھ نہ جانے کتنے خون کے گھونٹ بھی بھرنے پڑتے ہیں :)
خیر، اگر میری اور میرے جیسوں کو اللہ تعالیٰ نے اندرونی مٹھاس میں...
غزل
چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں، میں اُنگلیاں اُس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں
فریبِ تخیل سے میں ایسے ہزار نقشے جما چکا ہوں
حقیقتاََ میرا سر ہے زانو پہ تیرے یا خواب دیکھتا ہوں
پیام آیا ہے تم مکاں سے کہیں نہ جانا میں آرہا ہوں
میں اس عنایت کو سوچتا...