"زمِیں کا قرض"
زمیں کا قرض ہے ہم سب کے دوش و گردن پر
عجیب قرض ہے یہ ،قرضِ بے طَلب کی طرح
ہَمِیں ہیں سبزۂ خود رَو ، ہَمِیں ہیں نقشِ قَدم
کہ زندگی ہے یہاں موت کے سَبب کی طرح
ہر ایک چیز نُمایاں ، ہر ایک شے پِنہاں
کہ نیم روز کا منظر ہے نیم شب کی طرح
تماشہ گاہِ جہاں عِبرَتِ نظارہ ہے
زِیاں...
کُہرام
وہ پستیاں کہ ہمالہ تِری دُہائی ہے
تمام دیوتا خاموش، سر جُھکائے ہُوئے
ہزار راکھشسوں کی ہنسی کا ہے کُہرام
ہزار ناگ نِکل آئے ، پَھن اُٹھائے ہُوئے
شاؔذ تمکنت
1985- 1933
حیدرآباد دکن، انڈیا
غزل
زادِ سفر کو چھوڑ کے تنہا نِکل گیا
مَین کیا وطن سے نِکلا کہ کانٹا نِکل گیا
بہتر یہی تھا اپنی ہی چَوکھٹ پہ رَوکتے
اب کیا پُکارتے ہو، کہ جو نِکلا نِکل گیا
ہم چل پڑے کہ منزلِ جاناں قرِیب ہے
سستائے ایک لمحہ کو، رستہ نِکل گیا
کُچھ لوگ تھے جو دشت کو آباد کرگئے
اِک ہم ہیں، جن کے ہاتھ سے صحرا...
غزل
خوار و رُسوا تھے یہاں اہلِ سُخن پہلے بھی
ایسا ہی کُچھ تھا زمانے کا چلن ، پہلے بھی
مُدّتوں بعد تجھے دیکھ کے یاد آتا ہے
مَیں نے سِیکھا تھا لہُو رونے کا فن پہلے بھی
ہم نے بھی پایا یہاں خِلعَتِ سنگ و دُشنام
وضعدار ایسے ہی تھے اہلِ وطن پہلے بھی
دِلنواز آج بھی ہے نِیم نِگاہی تیری
دِل شکن...
غزل
یہ حُسنِ عُمرِ دو روزہ تغیّرات سے ہے
ثباتِ رنگ اِسی رنگِ بے ثبات سے ہے
پرودِیئے مِرے آنسوسَحر کی کِرنوں نے
مگر وہ درد، جو پہلوُ میں پچھلی رات سے ہے
یہ کارخانۂ سُود و زیانِ مہر و وفا
نہ تیری جیت سے قائم، نہ میری مات سے ہے
مجھے تو فُرصتِ سیرِ صِفاتِ حُسن نہیں
یہاں جو کام ہے، وابستہ تیری...
آب و سراب
تو یہ چہرہ ہے وہی، دیکھ کے جس کو اکثر
سیر چشمی کا ہُوا کرتا تھا احساس مجھے
تو یہ باتیں ہیں وہی، راز کی گرہیں تھیں کبھی
تو یہ وہ ہے، جو سمجھتی تھی بہت پاس مجھے
تو یہ آنکھیں ہیں وہی، بوسۂ لب کے ہنگام
بند ہو جاتی تھیں مندر کے کواڑوں کی طرح
تو یہ باہیں، مِری دِیوارِ بدن کا تھیں حصار...
غزل
میں تو چُپ تھا مگر اُس نے بھی سُنانے نہ دِیا
غمِ دُنیا کا کوئی ذکر تک آنے نہ دِیا
اُس کا زہرآبۂ پَیکر ہے مِری رگ رگ میں
اُس کی یادوں نے مگر ہاتھ لگانے نہ دِیا
اُس نے دُوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا
کُچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دِیا
بادبان اپنے سفِینے کا ذرا سی لیتے
وقت اِتنا...