غزلِ
اب اُس کی یاد ستانے کو بار بار آئے
وہ زندگی جو تِرے شہر میں گُزار آئے
تِری لگن نے زمانے کی خاک چَھنوائی
تِری طلب میں، تمام آرزوئیں ہار آئے
یہ بے بسی بھی نہیں لُطف اِختیار سے کم
خُدا کرے نہ کبھی دِل پہ اِختیار آئے
قدم قدم پہ گُلِستاں کِھلے تھے رستے میں
عجیب لوگ ہیں ہم بھی، کہ...