غزل
شان الحق حقیؔ
اے دِل! تِرے خیال کی دنیا کہاں سے لائیں
اِن وحشتوں کے واسطے صحرا کہاں سے لائیں
حسرت تو ہے یہی کہ ہو دُنیا سے دِل کو مَیل
ہو جس سے دِل کو مَیل وہ دُنیا کہاں سے لائیں
رَوشن تھے جو کبھی وہ نظارے کِدھر گئے
برپا تھا جو کبھی وہ تماشا کہاں سے لائیں
کیا اُس نگاہِ حوصلہ افزا کو دیں...
غزلِ
بُھلا دو، رنج کی باتوں میں کیا ہے
اِدھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے
بہت تارِیک دِن ہے، پھر بھی دیکھو
اُجالا چاندنی راتوں میں کیا ہے
نہیں پاتِیں جسے بَیدار نظریں
خُدایا یہ مِرے خوابوں میں کیا ہے
یہ کیا ڈُھونڈے چَلے جاتی ہے دُنیا
تماشہ سا گلی کوُچوں میں کیا ہے
ہے وحشت سی یہ ہرچہرے...