بڑھتا ہے حسنِ یار ملن کے خیال سے
ٹھہرو نمایاں کرتا ہوں اس کو مثال سے
رہنے لگی ہے دل میں وہ اک انتہا پسند
دھڑکن کی دشمنی ہے تبھی اعتدال سے
میں معترف ہوں تیرے سخن کا بھی شاعرہ
محفل مگر جوان ہے تیرے جمال سے
کم اس کی ہے شگفتگی معلوم ہے مگر
چلتی ہے نبض گل پہ ترے احتمال سے
تڑپے ہیں جب کہ...
تازہ غزل احباب کی نذر
تیرے دل سے اتر چکا ہوں میں
ایسا لگتا ہے مر چکا ہوں میں
اب مجھے کس طرح سمیٹو گے
ریزہ ریزہ بکھر چکا ہوں میں
تیری بے اعتنائیوں کے سبب
ظرف کہتا ہے بھر چکا ہوں میں
تجھ کو ساری دعائیں لگ جائیں
اب تو جینے سے ڈر چکا ہوں میں
ایک غم اور منتظر ہے مرا
ایک غم سے گزر چکا ہوں میں...
کیسے دکھائے دن دلِ خانہ خراب نے
آنکھوں کو گھر بنا لیا اِک جُوئے آب نے
مستی نگاہِ یار کی دیکھی تو شرم سے
بوتل میں منہ چھپا لیا اپنا شراب نے
منکر نکیر آئے ہیں ، چھیڑا ہے ذکرِ یار
بزمِ سخن سجائی سوال و جواب نے
قُدس و عُلُوّ و علم و ظہور و غیاب کے
کتنے نقاب اوڑھے ہیں اِک بے نقاب نے
پلٹا ہے...