شاعری۔

  1. رشید حسرت

    غزل :: ہو جاتا تھا اکثر جھگڑا ہم دونوں کے بِیچ : از : رشید حسرت

    ہو جاتا تھا اکثر جھگڑا ہم دونوں کے بِیچ رشید حسرت ہو جاتا تھا اکثر جھگڑا ہم دونوں کے بِیچ آ نہ پایا لیکن دُوجا، ہم دونوں کے بِیچ کیا موسم تھے، کیسے دِن تھے دوری بِیچ نہیں تھی حائل فاصلہ اب صدیوں کا ہم دونوں کے بِیچ یوں ہی رشتے، ناتے اک دِن بھسم تو ہو جانے تھے باقی رہ گیا ایک دِلاسہ ہم دونوں...
  2. رشید حسرت

    میں تُجھ کو کروں یاد یا تُو مُجھ کو کرے یاد

    میں تُجھ کو کروں یاد یا تُو مُجھ کو کرے یاد ماضی کے جھروکوں میں عجب رنگ بھرے یاد یہ کِس نے کہا وقت نے دُھندلائے تِرے نقش فانُوس جلے رکھتا ہوں پلکوں پہ سرِ یاد چہرے پہ مِرے وقت نے بھبُوت رمائی اب تو ہے وُہی بات کہ خُود مُجھ سے ڈرے یاد اک عُمر ہوئی پیار کا تابُوت اُٹھائے ہر شئے پہ فنا آئی ہے...
  3. رشید حسرت

    سکتا تھا۔

    سکتا تھا۔ تیرا قرضہ اُتار سکتا تھا دِل محبّت میں ہار سکتا تھا کام محنت طلب نہ تھا ہرگز مُجھ کو آنکھوں سے مار سکتا تھا ایک میں گُونجتا تھا اُس بن میں چار سُو میرے یار سکتہ تھا سر ہی اُس کا قلم کیا میں نے میری پگڑی اُتار سکتا تھا غیر کو تُو نے دی صدا ورنہ تُو مجھے بھی پُکار سکتا تھا تُو نے...
  4. رشید حسرت

    علی الاعلان ہو گا۔

    علی الاعلان ہو گا۔ یقیناً یہ بڑا احسان ہو گا نیازِ حُسن جو کُچھ دان ہوگا بُجھا لینے دو پہلے پیاس من کی پِھر اُس کے بعد جو فرمان ہو گا مکاں ہم نے بھی چھوڑا، تُم گئے تو بُجھے دِل کی طرح وِیران ہو گا مسل دے دِل کو جو غُنچہ سمجھ کر نہِیں اِنساں، کوئی حیوان ہو گا ہمیں مِلنے کی تُم سے جیسی چاہت...
  5. رشید حسرت

    کلام کرتا رہا۔

    کلام کرتا رہا۔ فلاح کے لیئے اِنساں کی کام کرتا رہا خُلوص و مِہر کے کُلیے میں عام کرتا رہا مِرے لِیئے تو مِرے دوست زہر اُگلتے رہے میں کِس گُماں میں ملائم کلام کرتا رہا وہ کِس قدر مِری فرمائشوں کے تھا تابع اُجالے رُخ سے، جو زُلفوں سے شام کرتا رہا مِلا جو اور کوئی اُس کی سمت دوڑ پڑا کُھلا وہ...
  6. رشید حسرت

    دل نذیر آ گئے۔

    دل پذیر آ گئے۔ اتنا تھا سوز چیخ میں سُن کر فقیر آ گئے گُوندھا ہؤا تھا عشق میں دل کا خمیر آگئے ھم نے کسی بھی درد سے دل کو بچا لیا تو تھا لیکن نِشانہ ڈُھونڈتے (کیا ھے کہ) تِیر آ گئے لو ہم نے چُن لیا تُمہیں، لو ہم تُمہارے ہو لِیئے لو موسموں میں مرحلے وہ دِل پذیر آ گئے جِن کو شعُور و آگہی،...
  7. رشید حسرت

    سائے کی طلب کیا۔

    سائے کی طلب کیا سفر ہے، اِس میں سائے کی طلب کیا چلا ھوں دُھوپ میں آرام اب کیا میں اپنے باپ کے تابع کہاں تھا اگر بیٹا ہے نا فرمان عجب کیا؟ چلو سب مان لِیں شرطیں تُمہاری بہانہ حِیل و حُجّت کا ھے اب کیا مِرا سب کچھ ادھورا رہ گیا ھے نہ آیا مُدعا یہ تا بہ لب، کیا؟ محبّت میں لُٹا بیٹھا ہوں سب...
Top