اب آنسوؤں کے دھندلکے میں روشنی دیکھو
ہجومِ مرگ سے آوازِ زندگی کو سنو
سنو کہ تشنہ دہن مالکِ سبیل ہوئے
سنو کہ خاک بسر وارثِ فصیل ہوئے
ردائے چاک نے دستارِ شہ کو تار کیا
تنِ نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا
سنو کہ حرص و ہوس، قہر و زہر کا ریلا
غبار و خار و خش و خاک ہی نے تھام لیا
سیاہیاں ہی مقدر ہوں جن...
ترے جنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنے سے مکمل ہوگئی ہوں
ذرا پیاسے لبوں کی اے اداسی
مجھے تو دیکھ چھاگل ہوگئی ہوں
بدن نے اوڑھ لی ہے شال اس کی
ملائم ، نرم ، مخمل ہوگئی ہوں
دھنسی جاتی ہے مجھ میں زندگانی
میں اک چشمہ تھی دلدل ہوگئی ہوں
کسی کے عکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینے سے اوجھل ہوگئی ہوں...