ایران کے مجلُۂ وحید میں ۱۹۶۷-۸ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاجکستانی ادبیات شناس عبدالغنی میرزایف لکھتے ہیں:
"آثار شاعر بزرگ سدهٔ یازدهم ایران میرزا محمد علی بن میرزا عبدالرحیم متخلص به صائب، اگر خطا نکنم، از اوایل سدهٔ بیستم میلادی و اگر روشنتر به مسئله نزدیک شویم، از تاریخ نشر...
علامہ شبلی نعمانی کی ایک خوبصورت غزل
من کہ در سینہ دِلے دارم و شیدا چہ کنم
میل با لالہ رُخاں گر نہ کنم تا چہ کنم
میں کہ سینے میں دل رکھتا ہوں اور وہ بھی شیدا سو کیا کروں؟ اگر لالہ رُخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھوں تو پھر آخر کیا کروں۔
من نہ آنم کہ بہ ہر شیوہ دل از دست دہم
لیک با آں نگہٴ حوصلہ...
غزل
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو
دردِ فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو
خواب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو
جوشِ وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا فکرِ لباس
بس کفایت ہے جنوں دامنِ صحرا ہم کو
رہبری کی دہنِ یار کی جانب خط نے
خضر نے چشمۂ حیواں یہ دکھایا ہم کو
دل...
غزل
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں
پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں
اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں
کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو...
غزل
تیرِ قاتل کا یہ احساں رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا
کی ذرا دستِ جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تا بداماں رہ گیا
دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادۂ راہِ بیاباں رہ گیا
قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردن پہ احساں رہ گیا
ہم تو پہنچے بزمِ جاناں تک مگر
شکوۂ بیدادِ درماں رہ گیا
کیا قیامت...
اثر کے پیچھے دلِ حزیں نے نشان چھوڑا نہ ہر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
بھلی تھی تقدیر یا بری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا
وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہو گی ابھی تو...
ایک دفعہ سر سید ، شبلی نعمانی اور مولوی ممتاز علی بیٹھے تھے۔ مختلف موضوعات پر بحث ہورہی تھی ۔ اس دوران سرسید کا ایک کاغذ گم ہوگیا۔ سر سید اسے ڈھونڈنے لگے ۔ اچانک مولانا شبلی کی نظر اس مطلوبہ کاغذ پر پڑی ۔ انہوں نے ازراہ مذاق اس پر ہاتھ رکھ دیا ۔ سرسید نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا اور اونچی آواز...
پوچھتے کیا ہو جو حال شب ِتنہائی تھا
رخصت ِصبر تھی یا ترک ِشکیبائی تھا
شب ِفرقت میں دل ِغمزدہ بھی پاس نہ تھا
وہ بھی کیا رات تھی،کیا عالم ِتنہائی تھا
میں تھا یا دیدہء خوں نابہ فشاں بھی شب ِہجر
ان کو واں مشغلہء انجمن آرائی تھا
پار ہائے دل خونیں کی طلب تھی پیہم
شب جو آنکھوں کی مری ذوق ِخود آرائی...
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حیات مقدس اور عظیم الشان کارنامے
الفاروق
شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ
عظیم اینڈ سنز پبلشرز
اردو بازار ، لاہور فون : 7241806