صداقتوں کے عذاب میں ہوں
میں جرم کے ارتکاب میں ہوں
جو اس سے نکلوں تو اور سوچوں
ابھی تو دشت سراب میں ہوں
محاسبہ کیا کروں کسی کا
میں اپنے ہی احتساب میں ہوں
مری بصیرت ہی کیا کہ خود ہی
میں منزل اکتساب میں ہوں
بدلتی قدروں سے میرا رشتہ
میں ہر نئے انقلاب میں ہوں
مرے لیے تو یہی بہت ہے
کہ...
غزل
سخن بے لفظ و بے منظر ہے کیسا
یہ سنّاٹا مرے اندر ہے کیسا
بناتا ہے فقط اپنی شبیہیں
ہمارے عہد کا آزر ہے کیسا
ہراک چہرے پہ ہیں دوہری نقابیں
دُھواں اس شہر کے اندر ہے کیسا
ہماری ڈور کس کے ہاتھ میں ہے
خرد مندو! یہ "پتلی گھر" ہے کیسا
میں بے زر، بے ضرر، تنہا مسافر
تعاقب میں مرے...
غزل
سنگِ چہرہ نما تو میں بھی ہوں
دیکھیے، آئینہ تو میں بھی ہوں
بیعتِ حسن کی ہے میں نے بھی
صاحبِ سلسلہ تو میں بھی ہوں
کون پہنچا ہے "دشتِ امکاں" تک
ویسے پہنچا ہوا تو میں بھی ہوں
آئینہ ہے سبھی کی کمزوری
تم ہی کیا، خود نما تو میں بھی ہوں
مجھ پہ ہنستا ہے کیوں ستارہِ صبح
رات بھر...
غزل
آخرِ شب جو بہم صبح کے اسباب ہوئے
حملہ آور مری آنکھوں پہ مرے خواب ہوئے
تشنگی بھی تو ہے اِک سیلِ بلا کی صورت
بستیاں غرق ہوئیں، خشک جو تالاب ہوئے
اب نہ آئیں گے کبھی قحطِ وفا کی زد میں
وہ علاقے مرے اشکوں سے جو سیراب ہوئے
خواب دیکھے تھے بہت، جنتِ گم گشتہ کے خواب
تجھ کو دیکھا تو...
غزل
اک طنز بھی نگاہِ سخن آفریں میں تھا
ہم پی گئے ، مگر یہ سلیقہ ہمیں میں تھا
اُس چشم و لب کے باب میں کیا تبصرہ کروں
اک بے پناہ شعر غزل کی زمیں میں تھا
خوشبو کسی طرح بھی نہ آئی گرفت میں
کیا حسنِ احتیاط مرے ہم نشیں میں تھا
کوزہ بنا رہے تھے جو مٹّی بھرے یہ ہاتھ
پہنچا ہوا میں اور کسی...
پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل
لے اُڑی ہے ترا لہجہ، تری گُفتار غزل
دو دھڑکتے ہوئے دل یوں دھڑک اُٹھّے اک ساتھ
جیسے مِل جُل کے بنا دیتے ہیں اشعار غزل
کوئی شیریں سخن آیا بھی، گیا بھی لیکن
گنگناتے ہیں ابھی تک در و دیوار غزل
میں تو آیا تھا یہاں چَین کی سانسیں لینے
چھیڑ دی کس نے سرِ...