غزل
کب تمنّا رہی، گمنام اُنھیں رہنے کی
پائی فِطرت تھی نہ اپنوں کو ذرا سہنے کی
دی جو تجوِیز اُنھیں ساتھ کبھی رہنے کی
بولے! ہّمت ہُوئی کیسے یہ ہَمَیں کہنے کی
بات ویسے بھی تھی سِینے میں نہیں رہنے کی
گرچہ سوچا تھا کئی بار نہیں کہنے کی
ذہن چاہے کہ اُڑان اپنی ہو آفاق سے دُور
دِل میں خواہش کبھی...
غزل
شفیق خلشؔ
پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی
خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی
نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو
اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی
ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی !
لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی
منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی!
پہلی غَزل کی داد بہت دُور...