نواؤں میں طرب باقی نہیں ہے
اداسی بے سبب باقی نہیں ہے
مسل ڈالا کسی نے دل کو لے کر
کوئی ارمان اب باقی نہیں ہے
بڑی شوخی سے آئے میکدے میں
مگر مے کی طلب باقی نہیں ہے
کہوں کیسے کہ ہو گا پھر سویرا
بظاہر تو سبب باقی نہیں ہے
نگاہ شوق میں دانش تری اب
وہ پہلا سا ادب باقی نہیں ہے