شہرِ آشوب
(ا)
لب شرر بار چشم اشک فشاں
زندگی مثلِ جُوئے دردِ رواں
منزلیں گم ہیں وادیاں حیراں
دل کا اجڑا نگر بساؤں کیسے
کم سواری کو شوق امامت کا
کوئی گوشہ نہیں ندامت کا
فتنہ اٹھا ہے کس قیامت کا
اُتر آئی زمیں پر کاہکشاں
در و دیوار پر سوار ہے شہر
سنگ و آہن سے گُل عذار ہے شہر
شوکتِ...