غزل
کشور ناہیؔد
نہ کوئی ربط، بجُز خامشی و نفرت کے
مِلیں گے اب تو خلاصے یہی محبّت کے
مَیں قیدِ جِسم میں رُسوا، تُو قید میں میری
بَدن پہ داغ لیے قیدِ بے صعوبت کے
عجیب بات، گریباں پہ ہاتھ اُن کا ہے
جو، توشہ گیرِ تمنّا تھےحرفِ غیرت کے
بس اب تو حرفِ ندامت کو ثبتِ دائم دے
صَبا صفت تھے رسالے غَمِ...
کشور ناہؔید
سنبھل ہی لیں گے، مُسلسل تباہ ہوں تو سہی
عذابِ زِیست میں رشکِ گناہ ہوں تو سہی
کہِیں تو ساحِلِ نایافت کا نِشاں ہوگا
جلاکے خود کو تقاضائے آہ ہوں تو سہی
مجال کیا ، کہ نہ منزِل بنے نشانِ وفا
سفِیرِ خود نگراں، گردِ راہ ہوں تو سہی
صدا بدشت بنے گی نہ یہ لہُو کی تپِش
لہُو کے چھینٹے مگر...