شورش

  1. محمدابوعبداللہ

    اس کشاکش میں یہاں عمر رواں گزرے ہے۔ آغا شورش کاشمیری

    اس کشاکش میں یہاں عمر رواں گزرے ہے جیسے صحرا سے کوئی تشنہ دہاں گزرے ہے اس طرح تلخیٔ ایام سے بڑھتی ہے خراش جیسے دشنام عزیزوں پہ گراں گزرے ہے اس طرح دوست دغا دے کے چلے جاتے ہیں جیسے ہر نفع کے رستے سے زیاں گزرے ہے یوں بھی پہنچے ہیں کچھ افسانے حقیقت کے قریب جیسے کعبہ سے کوئی پیر مغاں گزرے ہے ہم...
  2. طارق شاہ

    شورش آروی - " آخر کو جان دینی پڑی مجھ کو آن پر"

    غزل شورش آروی آخر کو جان دینی پڑی مجھ کو آن پر دل دے کے تم کو آ ہی بنی میری جان پر سُرمہ نہیں لگا ہے پپوٹوں پہ یار کے ہے تیغ پہ یہ تیغ، کماں ہے کمان پر بے دید جلوۂ رُخِ روشن پِھرے نہیں موسیٰ کی طرح جا پڑے جب آستان پر مسجد، کنشت، دیر، حرم، مے کدہ، بہشت پہنچا کہاں کہاں میں...
Top