غزل
آپ سے شرح ِآرزُو تو کریں
آپ تکلیف ِگفتگو تو کریں
وہ نہیں ہیں جو، وہ کہیں بھی نہیں
آئیے دِل میں جُستجُو تو کریں
اہلِ دُنیا مجھے سمجھ لیں گے
دِل کسی دِن ذرا لہُو تو کریں
رنگ و بُو کیا ہے ،یہ تو سمجھا دو
سیرِدُنیائے رنگ و بُو تو کریں
وہ اُدھر رُخ اِدھر ہے میّت کا
لوگ فانؔی کو قِبلہ رُو تو...
غزل
وہ جی گیا جو عِشق میں جی سے گُزر گیا
عیسیٰ کو ہو نَوِید کہ بیمار مر گیا
آزاد کُچھ ہُوئے ہیں اَسِیرانِ زندگی
یعنی جمالِ یار کا صدقہ اُتر گیا
دُنیا میں حالِ آمد و رفتِ بَشر نہ پُوچھ
بے اختیار آ کے رہا ، بے خبر گیا
شاید کہ شام ِہجر کے مارے بھی جی اُٹھیں
صُبحِ بہار ِحشر کا چہرہ اُتر گیا
آیا...
غزل
ہر گھڑی اِنقلاب میں گُزری
زندگی کِس عذاب میں گُزری
شوق تھا مانَعِ تجلّیِ دوست !
اُن کی شوخی حِجاب میں گُزری
کَرَمِ بے حِساب چاہا تھا
سِتَمِ بے حِساب میں گُزری
ورنہ دُشوار تھا سُکونِ حیات
خیر سے اِضطراب میں گُزری
رازِ ہستی کی جُستجُو میں رہے
رات تعبیرِخواب میں گُزری
کُچھ کٹی ہمّتِ...
جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں
دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں
دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں
تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی...
fani badayuni
urdupoetry
اردو شاعری
اردو کلاسیکی شاعری
شوکتعلیخانفانیبدایونی
طارق شاہ
غزل
فانیفانیبدایونی
فرخ منظور
کلاسیکل شاعری
کلاسیکی شاعری
کلاسیکی شاعری اردو
غزلِ
لب منزلِ فُغاں ہے، نہ پہلوُ مکانِ داغ
دِل ره گیا ہے نام کو باقی نشانِ داغ
اے عِشق! خاکِ دِل پہ ذرا مشقِ فِتنہ کر
پیدا کر اِس زمِیں سے کوئی آسمانِ داغ
دِل کُچھ نہ تها تمھاری نظر نے بنا دِیا
دُنیائے درد، عالَمِ حسرت، جہانِ داغ
پہلے اجَل کو رُخصتِ تلقینِ صبْر دے
پهر آخری نِگاہ سے...
غزلِ
فانی بدایونی
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
کاش تُو نے مجھے دِیوانہ بنایا ہوتا
دِل میں اِک شمْع سی جلتی نظر آتی ہے مجھے
آ کے اِس شمْع کو پروانہ بنایا ہوتا
تیرے سجدوں میں نہیں شانِ محبّت زاہد
سر کو خاکِ دَرِ جانانہ بنایا ہوتا
دِل تِری یاد میں آباد ہے اب تک، ورنہ
غم نے کب کا...
فانی بدایونی
بیداد کے خُوگر تھے، فریاد تو کیا کرتے !
کرتے، تو ہم اپنا ہی، کچھ تم سے گلہ کرتے
تقدیرِ محبّت تھی، مر مر کے جئے جانا
جینا ہی مُقدّر تھا، ہم مر کے بھی کیا کرتے
مُہلت نہ مِلی غم سے، اتنی بھی کہ حال اپنا !
ہم آپ کہا کرتے، ہم آپ سُنا کرتے
نادم اُسے چاہا تھا ، جاں اُس پہ فِدا...