آنا تو خفا آنا، جانا تو رلا جانا
آنا ہے تو کیا آنا، جانا ہے تو کیا جانا
کیا طبع میں جودت ہے چٹ دل کی اڑا جانا
ہونٹوں کا یہاں ہلنا واں بات کا پا جانا
٭٭٭
شیخ ابراہیم ذوقؔ
کروں درد آشنا کیونکر دلِ احباب اپنا سا
بلا سے جیسا میں ہوں ڈھونڈ لوں بیتاب اپنا سا
مَلَک سجدہ کریں آدم کو کیا بندہ نوازی ہے
دیا بندے کو اپنے اس نے خود آداب اپنا سا
٭٭٭
شیخ ابراہیم ذوقؔ
غزلِ
شیخ محمد ابراہیم ذوق
برسوں ہو ہجر، وصل ہو گر ایک دَم نصِیب
کم ہوگا کوئی مجھ سا محبّت میں کم نصِیب
گر میری خاک کو ہوں تمھارے قدم نصِیب
کھایا کریں نصِیب کی میرے قسم نصِیب
ماہی ہو یا ہو ماہ، وہ ہو ایک یا ہزار!
بے داغ ہو نہ دستِ فلک سے درِم نصِیب
بہتر ہے لاکھ لُطف و کرم سے تِرے...
غزل
جب چلا وہ مجھ کو بِسمِل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتِل کا داماں چھوڑ کر
میں وہ مجنوں ہُوں جو نِکلوں کُنجِ زِنداں چھوڑ کر
سیبِ جنّت تک نہ کھاؤں سنگِ طِفلاں چھوڑ کر
میں ہُوں وہ گمنام، جب دفتر میں نام آیا مِرا
رہ گیا بس مُنشیِ قُدرت جگہ واں چھوڑ کر
سایۂ سروِ چمن تجھ...
بلبل ہوں صحنِ باغ سے دور اور شکستہ پر
پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر
کیا ڈھونڈے دشتِ گمشدگی میں مجھے کہ ہے
عنقا مرے سراغ سے دور اور شکستہ پر
اُس مرغِ ناتواں پہ ہے حسرت جو رہ گیا
مرغانِ کوہ و راغ سے دور اور شکستہ پر
ساقی بطِ شراب ہے تجھ بن پڑی ہوئی
خُم سے الگ ایاغ سے دور اور شکستہ پر
خود...
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
ناخن نہ دے خدا تجھے اے پنجۂ جنوں
دے گا تمام عقل کے بخیے ادھیڑ تُو
اس صیدِ مضطرب کو تحمل سے ذبح کر
دامان و آستیں نہ لہو میں لتھیڑ تُو
چھٹتا ہے کون مر کے گرفتارِ دامِ زلف
تربت پہ اس کی جال کا پائے گا پیڑ تُو
اے زاہدِ دو رنگ...
کب حق پرست زاہدِ جنت پرست ہے
حوروں پہ مر رہا ہے، یہ شہوت پرست ہے
دل صاف ہو تو چاہیے معنی پرست ہو
آئینہ خاک صاف ہے، صورت پرست ہے
درویش ہے وہی جو ریاضت میں چست ہو
تارک نہیں فقیر بھی، راحت پرست ہے
جز زلف سوجھتا نہیں اے مرغِ دل تجھے
خفّاش٭ تو نہیں ہے کہ ظلمت پرست ہے
دولت کی رکھ نہ مارِ سرِ گنج...
غزل
(ذوق)
حالت نشہ میں دیکھنا اس بےحجاب کی
ہرناز سے ٹپکتی ہے مستی شراب کی
کوچہ میں آپڑے تھے ترے خاک ہو کے ہم
یاں تو صبا نے اور بھی مٹی خراب کی
قاصد جواب جان مری دے چلی مجھے
پر منتظر ہے آنکھوں میں خط کے جواب کی
نکلے ہو مے کدہ سے ابھی منہ چھپا کے تم
دابے ہوئے بغل میں...
غزل
(ذوق)
کہتے ہیں جھوٹ سب کہ نہیں پاؤں جھوٹ کے
جھوٹے تو بیٹھتے بھی نہیں پاؤں ٹوٹ کے
چلتا ہو ذوق قید سے ہستی کے چھوٹ کے
یہ قید مار ڈالے گی دم گھوٹ گھوٹ کے
ڈھالا جو تجھ کو حسن کے سانچے میں اے صنم
آنکھوں کی جائے بھر دئیے موتی سے کوٹ کے
بے درد سینہ کوٹنا خالی نہیں مزا
دل میں...
غزل
(ذوق)
دن کٹا جائے اب رات کدھر کاٹنے کو
جب سے وہ گھر میں نہیں، دوڑے ہے گھر کاٹنے کو
ہائے صیاد تو آیا مرے پر کاٹنے کو
میں تو خوش تھا کہ چھری لایا ہے سر کاٹنے کو
اپنے عاشق کو نہ کھلواؤ کنی ہیرے کی
اُس کے آنسو ہی کفایت ہیں جگر کاٹنے کو
دانت انجم سے نکلالے ہوئے تجھ بن مجھ پر...
غزل
(ذوق)
ہم سے ظاہر و پنہاں جو اُس غارت گر کے جھگڑے ہیں
دل سے دل کے جھگڑے ہیں نظروں سے نظر کے جھگڑے ہیں
جیتے ہی جی کیا ملک فنا میں ساتھ بشر کے جھگڑے ہیں
مر کے ادھر سے جبکہ چھٹے تو جا کے اُدھر کے جھگڑے ہیں
کیسا مومن، کیسا کافر کون ہے صوفی کیسا رند
سارے بشر ہیں بندے...
غزل
زخمی ہوں میں اُس ناوکِ دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے
ہم خوب ہیں واقف تری اندازِ کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے
گر اب کے پھرے جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے
سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
اک آہ بھی سینے میں سو ناامّیدِ اثر سے
وہ خُلق سے...
غزل
ہے تیرے کان زلفِ معنبر لگی ہوئی
رکھے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خُمِ مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خون کوئی رہتی ہے تیری تیغ
ہے یہ تو اس کو چاٹ ستمگر لگی ہوئی
میت کو غسل دیجو نہ اس خاکسار کی
ہے تن پہ خاک کوچۂ دلبر لگی ہوئی
عیسیٰ بھی گر...
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی تخلص بہ ذوق)
کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینہ میں ہوگی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد
کیا روکا ہم نے گریہ کواپنے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
اُس لعل لب کے ہم نے لیئے بوسے اس قدر
سب اُڑ گئی مسی کی دھڑی دو گھڑی کے بعد
کوئی...
اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا
اگر پایا - تو کھوج اپنا نہ پایا
جس انساں کو سگِ دنیا نہ پایا
فرشتہ اس کا ہم پایا نہ پایا
مقدر پہ ہی گر سود و زیاں ہے
تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا - نہ پایا
سراغِ عمرِ رفتہ ہو - تو کیونکر؟
کہیں جس کا نشاں نہ پایا
رہِ گم گشتگی میں ہم نے اپنا
غبارِ راہ...
نہیں ثبات بلندی عز و شاں کے لئے
کہ ساتھ اوج کے پستی ہے آسماں کے لئے
نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی - کہ یہ شے
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لئے
جو پاسِ مہرو محبت کہیں یہاں بکتا
تو مول لیتے ہم اک اپنے مہرباں کے لئے
اگر امید نہ ہمسایہ ہو - تو خانہء یاس
بہشت ہے ہمیں آرامِ جاوداں کے...