غزل
محمد ابراہیم ذوقؔ
اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے
چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے
کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے
عِشق نے کُشتہ کِیا صُورتِ سِیماب مجھے
کل جہاں سے کہ اُٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پِھر دِلِ بے تاب مجھے
چمنِ دہر میں جُوں سبزۂ شمشِیر ہُوں مَیں
آب کی...
غزل
نگہ کا وار تھا دل پر، پھڑکنے جان لگی
چلی تھی برچھی کسی پر، کسی کے آن لگی
ترا زباں سے ملانا زباں جو یاد آیا
نہ ہائے ہائے میں تالو سے پھر زبان لگی
کسی کے دل کا سنو حال دل لگا کر تم
جو ہووے دل کو تمہارے بھی، مہربان لگی
تو وہ ہے ماہ جبیں مثلِ دیدۂ انجم
رہے ہے تیری طرف چشمِ یک جہان لگی
خدا...
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)
وہ کون ہے مُجھ پر جو تاسف نہیں کرتا؟
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اُف نہیں کرتا
کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میںاُن کے
اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا
دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
دنیا کے زرو...
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)
آنکھیں مری تلوؤں سے وہ مَل جائے تو اچھا
ہے حسرتِ پابوس نکل جائے تو اچھا
جو چشمِ کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر
جو دل نہ ہو بے داغ وہ جَل جائے تو اچھا
بیمار ِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا...
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)
ترے کوچے کو وہ بیمارِغم دارلشفا سمجھے
اجل کو جو طبیب اور مرگ کو اپنی دوا سمجھے
ستم کو ہم کرم سمجھے ، جفا کو ہم وفا سمجھے
اور اُس پر بھی نہ سمجھے وہ تو اُس بُت سے خدا سمجھے
تجھے اے سنگدل آرامِ جانِ مبتلا سمجھے
پڑیں پتھر سمجھ پر...
غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)
وقتِ پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
اُسکے گھر لے چلا مجھے دیکھو
دلِ خانہ خراب کی باتیں
واعظا چھوڑ ذکرِ نعمت خُلد
کر شراب و کباب کی باتیں
تجھ کو رسوا کریں گی خوب، اے دل
تیری یہ اضطراب کی باتیں
سُنتے ہیں اُس کو چھیڑ چھیڑ...