غزل
محمد ابراہیم ذوقؔ
اُس نے مارا رُخِ روشن کی دِکھا تاب مجھے
چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے
کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے
عِشق نے کُشتہ کِیا صُورتِ سِیماب مجھے
کل جہاں سے کہ اُٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پِھر دِلِ بے تاب مجھے
چمنِ دہر میں جُوں سبزۂ شمشِیر ہُوں مَیں
آب کی...