کیوں دلا ہم ہوئے پابندِ غمِ یار کہ تو
اب اذیّت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تو
ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا
جا کے ہم روتے ہیں پہروں پسِ دیوار کہ تو
ہاتھ کیوں عشقِ بتاں سے نہ اٹھایا تو نے
کفِ افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تو
و ہی محفل ہے وہی لوگ وہی چرچا ہے
اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکلِ...
غافل نہ رہیو اُس سے تو اے یار آج کل
مرتا ہے تیرے عشق کا بیمار آج کل
کیا جانیں کیا کرے گا وہ خونخوار آج کل
رکھتا بہت ہے ہاتھ میں تلوار آج کل
جو ہے سو آہ عشق کا بیمار ہے دلا
پھیلا ہے بے طرح سے یہ آزار آج کل
اُس دوست کے لئے ترے دشمن ہیں سینکڑوں
اے دل! ٹک اک پہر تو خبردار آج کل
یوسف کسی...