کیوں دلا ہم ہوئے پابندِ غمِ یار کہ تو
اب اذیّت میں بھلا ہم ہیں گرفتار کہ تو
ہم تو کہتے تھے نہ عاشق ہو اب اتنا تو بتا
جا کے ہم روتے ہیں پہروں پسِ دیوار کہ تو
ہاتھ کیوں عشقِ بتاں سے نہ اٹھایا تو نے
کفِ افسوس ہم اب ملتے ہیں ہر بار کہ تو
و ہی محفل ہے وہی لوگ وہی چرچا ہے
اب بھلا بیٹھے ہیں ہم شکلِ...