اب گزارا نہیں اس شوخ کے در پر اپنا
جس کے گھر کو یہ سمجھتے تھے کہ ہے گھر اپنا
کوچۂ دہر میں غافل نہ ہو پابندِ نشست
رہ گزر میں کوئی کرتا نہیں بستر اپنا
غم زدہ اٹھ گئے دنیا ہی سے ہم آخر آہ!
زانوئے غم سے ولیکن نہ اٹھا سر اپنا
دیکھیں کیا لہجۂ ہستی کو کہ جوں آبِ رواں
یاں ٹھہرنا نظر آتا نہیں...
مثلِ آئینہ باصفا ہیں ہم
دیکھنے ہی کے آشنا ہیں ہم
نہیں دونوں جہاں سے کام ہمیں
اِک فقط تیرے مبتلا ہیں ہم
دیکھ سائے کی طرح اے پیارے!
ساتھ تیرے ہیں اور جدا ہیں ہم
ٹک تو کر رحم اے بتِ بے رحم
آخرش بندۂ خدا ہیں ہم
ظلم پر اور ظلم کرتے ہو
اس قدر قابلِ جفا ہیں ہم؟
جوں صبا نام کو تو ہیں ہم لوگ...
اس ڈھب سے کیا کیجے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے، رہو رات کہیں اور
کیا بات کوئی اُس بتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اشارات کہیں اور
اس ابر میں پاؤں مَیں کہاں دخترِ رز کو
رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور
گھر اُس کو بُلا، نذر کیا دل تو وہ جرأت
بولا کہ یہ بس کیجے مدارات کہیں...
ہمیں دیکھنے سے وہ جیتا تھا اور ہم اس پہ مرتے تھے
یہی راتیں تھیں اور باتیں تھیں وہ دن کیا گزرتے تھے
وہ سوزِ دل سے بھر لاتا تھا اشک سرخ آنکھوں میں
اگر ہم جی کی بے چینی سے آہِ سرد بھرتے تھے
کسی دھڑکے سے روتے تھے جو باہم وصل کی شب کو
وہ ہم کو منع کرتا تھا ہم اس کو منع کرتے تھے
ملتی رہتی...