عبید اللہ علیم کی ایک خوبصورت غزل، جس کے متعلق وہ کچھ یوں کہتے ہیں:
"اس غزل کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے بھی تعلق رکھتی ہے اور صنفِ نازک سے بھی تعلق رکھتی ہے مگر اُس کا تعلق ذرا اور طرح کا ہے۔"
غزل
باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ...
میں پچھلے ایک گھنٹے سے
بس اسٹاپ کھڑی ہوئی تھی
اور میری نظریں
آتے جاتے ہوئے ہر مرد پر
آتی جاتی ہوئی ہر گاڑی پر ٹِک جاتی تھیں
میں اس انتظار میں تھی
دیکھو۔۔۔۔ کب کوئی آنکھ اشارہ کرے!
سُنوں۔۔۔۔۔ کب کسی گاڑی کا ہارن بجے!
اورمیں سوچ رہی تھی
اگرمیں آج بھی خالی ہاتھ گھر لوٹی تو...